جب مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی سفارت خانے کو پریشان کر دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی سفارت خانہ کو پریشان کر دیا
جب مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی سفارت خانہ کو پریشان کر دیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج کل سیاسی اور صحافتی گرما گرمی چل رہی ہے، بلکہ اس میں تو اب ”دھکامُکی “بھی شامل ہوگئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کہنے کو نئی بات کسی کے پاس نہیں۔ آدھی ادھوری باتیں چل رہی ہیں، آدھا سچ کیا بیان کرنا؟ ایسے میں کیوں نہ پاکستانی تاریخ کے ان جھروکوں سے جھانکا جائے جہاں نادیدہ فصیلوں کے اندر نجانے کیا کیا سچ اور حقائق پوشیدہ ہیں۔

کرامت اللہ غوری ممتاز پاکستانی (سابق )سفارتکار ہیں، وہ کئی ممالک میں سفیر رہے ،جن میں کویت بھی شامل ہے۔ غوری صاحب نے اپنے مشاہدات، تاثرات اور تجربات پر مبنی دو کتابیں لکھی ہیں۔ دوسری کتاب ”روزگار سفیر“ کے حوالے سے قارئین کے لئے دو تین واقعات بیان کئے تھے۔ آج ان کی پہلی اور زیادہ مشہور کتاب ” بارشناسائی“کو کھنگالتے ہیں۔

کرامت غوری نے مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے دو تین دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔ اپنی کتاب کے صفحہ115سے 118تک میں یہ تفصیل لکھی۔میں کوشش کروں گا کہ اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کر دوں، ورنہ اس کے لئے ایک کالم کافی نہیں ہوگا۔

غوری صاحب کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن تب چیئرمین خارجہ امور کمیٹی (قومی اسمبلی)تھے، وہ کویت آئے۔ ان کے آنے سے پہلے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ایک خفیہ مراسلہ پاکستانی سفارت خانے کے پاس آیا جس میں بی بی نے کہا کہ مولانا ایک اہم مشن پر کویت بھیجے جا رہے ہیں تاکہ وہ کویتی اراکین پارلیمنٹ کے کلیدی ارکان کو مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف سے آگاہ کریں۔ پاکستانی سفارت خانہ اس پر مستعد ہوگیا۔

مولانا کے دورہ کی پہلی صبح انہیں کویتی پارلیمان کی خارجہ امورکمیٹی سے ملاقات کے لئے لے جایا گیا۔تب ڈاکٹر جاسم الصقر اس کمیٹی کے سربراہ تھے ، ستر پچھتر سالہ بزرگ، نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، فرانس سے انہوں نے قانون اور معاشیات میںڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لی تھیں۔ کویتی پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کے پانچ چھ دیگر اراکین بھی تھے جو سب اعلیٰ یافتہ تھے، ان کے پاس امریکہ یا برطانیہ سے یونیورسٹی کی اسناد تھیں اور وہ سب ہی انٹرنیشنل افیئرز کے ماہر تھے ۔ مولانا فضل الرحمن کا سب نے تپاک سے استقبال کیا اور کانفرنس روم میں بٹھایا گیا۔ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر جاسم الصقر نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں، بیان کریں۔

کرامت غوری کہتے ہیں مجھے شدید حیرت ہوئی جب مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا کہ کشمیر پرپاکستانی موقف سے کویتی اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کروں۔ کرامت غوری نے بطور سفیر پاکستان مولانا کو یاد دلایا کہ وہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خصوصی ایلچی کے طور پر آئے ہیں،اس لئے آپ ہی بیان فرمائیں۔

مولانا اس پر بدمزہ تو ہوئے مگر جب کانفرنس روم میں خاموشی بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کئے جن کا کرامت غوری انگریزی میں ترجمہ کرتے رہے۔ غوری صاحب کو اندازہ ہوا کہ مولانا نفس مضمون کی طرف نہیں آ رہے، کویتی اراکین پارلیمنٹ بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس پر مجبور ہو کر کرامت غوری نے کہا کہ اگر مولانا اجازت دیں تو میں گفتگو آگے بڑھاﺅں۔ مولانا نے خوش ہو کر فوری ہامی بھر لی اور پھر سامنے میز پر رکھے کیک پیسٹری کی طرف متوجہ ہوگئے، اگلے ایک گھنٹے تک سفیر پاکستان گفتگو کرتا رہا جبکہ مولانا پیٹ پوجا کرتے رہے ۔

کرامت غوری کہتے ہیںمیرا خیال تھا کہ باہر نکل کر مولانا فضل الرحمن میرا شکریہ ادا کریں گے کہ میں نے ان کی مشکل حل کر دی۔ اس کے بجائے انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فرمائش داغ دی کہ کویتی کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم بیت الزکواتہ کے صدر جاسم الحجی سے ملاقات کرائی جائے ۔ کویت کی یہ فلاحی تنظیم دنیا بھر کے مسلم ممالک میں مدرسوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور اس طرح کے دیگر فلاح وبہبود کے اداروں کو مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔

کرامت غوری اگلے روز مولانا فضل الرحمن کو جاسم الحجی کے پاس لے گئے، مگر انہیں پہلے پوری بریفنگ دی کہ بیت الزکواتہ کے پاس کروڑوں ڈالر کے فنڈز ہیں، مگر وہ انہیں یوں ضائع نہیں کیا کرتے، ان سے مدد لینے والے کے پاس پورا منصوبہ تفصیل کے ساتھ ہونا چاہیے اور اگر کوئی مدرسہ وغیرہ بنوانا ہے تو فیزیبلٹی سٹڈی کے ساتھ تعمیراتی کام کی متعلقہ ڈرائنگ بھی ہو، ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔ غوری صاحب نے مولانا سے پوچھا کہ وہ اپنے ہمراہ منصوبے کی پوری تفصیل لائے ہیں، مولانا نے کہا کہ وہ کیل کانٹے سے لیس آئے ہیں۔

اگلی صبح ملاقات میں حجی صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے دریافت کیا کہ وہ اپنے مدرسے کی جس توسیع کی بات کر رہے ہیں، جس کے لئے مد د چاہیے ، اس کے لئے ضروری دستاویزی کارروائی کر لی گئی ہے اور ان کے پاس ضروری کاغذات موجود ہیں؟تب مولانا نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس سوائے اعداد وشمار کے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے کاغذ پر قلمبند کئے تھے، اور کوئی تفصیل نہیں۔ اس پر جاسم الحجی صاحب نے معذرت کر لی کہ وہ ایسے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ مولانا کا یہ اعتراف اور یوں خالی ہاتھ اس میٹنگ کے لئے جانا ظاہر ہے کرامت غوری کے لئے بہت تکلیف دہ تھا، تاہم اصل شرمندگی انہیں شام کو ہوئی۔

اسی شام کویت کے ایک اور معروف ادارے نے مولانا کے اعزاز میں تقریب رکھی،یہ تنظیم کویت میں مقیم غیر مسلموں میں بڑے سلیقے سے تبلیغ کا کام کرتی تھی۔ اس تنظیم کے عمائدین کا خیال تھا کہ مولانا چونکہ ایک عالم دین ہیں اس لئے وہ شام کو کچھ وقت دیں اور ان غیر مسلموں کو اپنے علم سے فیض پہنچائیں جو اس ادارہ کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے۔ تقریب کے وقت پر ڈیڈ ھ سو کے قریب لوگ ہال میں جمع ہوگئے تھے، مگر مولانا فضل الرحمن نہیں پہنچے۔

انہوں نے پاکستانی سفارت خانہ رابطہ کیا تو وہ چکرا گئے ۔کرامت اللہ غوری کو اطلاع ملی تو انہوں نے پریشانی اور شرمندگی کے عالم میں مولانا فضل الرحمن کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ انہیں یہ تو اطمینان تھا کہ کویت میں وہ اغوا نہیں ہوسکتے تھے، مگر تشویش تھی کہ اپنے فائیو سٹار ہوٹل سے وہ کیسے لاپتہ ہوگئے ؟ کرامت غوری نے کویتی میزبانوں کو تسلی دی کہ وہ مولانا کو ڈھونڈ کر لا رہے ہیں جبکہ کویتی پروٹوکول کو بھی اطلاع دی کہ مولانا لاپتہ ہیں، ان کا اتاپتہ معلوم کریں۔

کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب میں اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کی ہے ،”آدھے گھنٹے بعدجب میں جلسہ گاہ پہنچ چکا تو کویتی پروٹوکول کے ایک ذمہ دار افسر نے فون پر اطلاع دی کہ مولانا شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے میں ضیافت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میرے اپنے ماتحت نے فون پر یہ خبر سنائی کہ مولانا ضیافت تو اڑا رہے تھے لیکن ساتھ میں اپنے مدرسوں کے لئے چندہ بھی جمع کر رہے تھے۔ مجھے بے ساختہ اکبر الہ آبادی کا شعر یا آ گیا
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

”سو مولانا اپنے مداحوں سے ہر پہلو سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ دو ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے جب مولانا وہاں جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو میزبان بے چارے تو کچھ نہ کہہ سکے مگر میں نے مولانا سے صاف الفاظ میں شکوہ کیا کہ انہوں نے اس مصروفیت پر اپنی ذاتی مصروفیت کو جس کا مجھے(بطور سفیر پاکستان) نہ پہلے سے علم تھا اور نہ ہی کویتی میزبانوں، ترجیح دے کر نہ صرف اپنے آپ کو شرمندہ کیا تھا بلکہ میرے ساتھ ساتھ ملک وقوم کو بھی ، اپنی اس حرکت سے انہوں نے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچایا تھا۔

”مولانا وہاں تو سب کے سامنے کچھ نہ کہہ سکے مگر پاکستان پہنچتے ہی انہوں نے بے نظیر سے شکایت کہ کہ پاکستانی سفیر نے ان کے احترام میں کسر چھوڑی تھی، لیکن انہوں علم نہیں تھا کہ ان کی شکایت سے پہلے میری تحریری شکایت جس میں اس پورے واقعے کا تذکرہ تھا، وہ وزیراعظم تک پہنچ چکی تھی۔ البتہ مولانا کو میرا شکرگزار ہونا چاہیے کہ میں نے مولانا کی اپنے اصل مشن میں پھسڈی کارگزاری کاتذکرہ نہیں کیا جس کے لئے انہیں خاص طور سے کویت بھجوایا گیا تھا۔ “

Related Posts