محاصرہ توڑنے کی ایک اور کوشش، 80 ممالک کے ہزاروں کارکنان غزہ کی طرف روانہ، مصر میں بے چینی

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو سوشل میڈیا

غزہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے جانے والی کشتی کی ناکامی کے بعد اب دنیا کے 80 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں انسانی حقوق کے کارکنان اور پارلیمانی نمائندوں نے غزہ کی سرحد کی طرف مارچ شروع کردیا ہے۔

عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق “المسيرة العالمية إلى غزة” (عالمی مارچ برائے غزہ) کے نام سے انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک انوکھا اور پرامن احتجاجی قافلہ ترتیب دیا ہے۔ اس مارچ کا مقصد غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ عملی اظہارِ یکجہتی، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیلی جرائم کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنا ہے۔
پس منظر اور شرکت:
اس عالمی مارچ کا اعلان بین الاقوامی اتحاد برائے انسداد اسرائیلی قبضہ کے سربراہ سیف ابو کشک نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ غیر عرب ممالک کے تقریباً 4 ہزار افراد اس مارچ میں شرکت کریں گے، جن کا تعلق 80 مختلف ممالک سے ہے۔ ان میں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان سمیت مختلف ممالک کے پارلیمانی نمائندے بھی شامل ہیں۔
مارچ میں شریک اکثریتی افراد کا تعلق مغربی ممالک سے ہے اور وہ عرب یا مسلمان نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک خالص انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ اب تک 10 ہزار سے زائد افراد مارچ میں شرکت کے لیے رجسٹر ہو چکے ہیں۔ لاجسٹک اور میڈیا کو مؤثر بنانے کے لیے شرکاء کو جغرافیائی بنیادوں پر گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
قافلۂ صمود اور اس کا سفر:
مارچ میں زمینی راستے سے آنے والی ایک نمایاں شراکت “قافلۂ صمود” کی ہے، جو الجزائر اور تیونس سے ہوتے ہوئے لیبیا میں داخل ہو چکا ہے۔ اس قافلے میں 20 بسیں اور 350 گاڑیاں شامل ہیں، جن میں 1500 سے زائد افراد سوار ہیں۔ ان کا حتمی پڑاؤ مصری شہر العریش ہے، جہاں سے وہ باقی شرکاء کے ساتھ مل کر رفح بارڈر کی طرف پیدل مارچ کریں گے۔
مارچ کے اہداف:
مارچ کے منتظمین نے درج ذیل پانچ بنیادی مقاصد واضح کیے ہیں:
1. غزہ میں نسل کشی کا خاتمہ: اسرائیلی افواج کی منظم قتل و غارت، بالخصوص بچوں کو بھوک کے ذریعے ہدف بنانے کے خلاف عالمی سطح پر اجتماعی مزاحمت۔
2. انسانی امداد کی فوری فراہمی: غذائی، طبی اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کو فوری طور پر غزہ پہنچانے کے لیے رفح بارڈر کھلوانا۔
3. محاصرہ ختم کرانا: اسرائیلی محاصرے کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے غزہ کے لیے ایک مستقل اور غیر مشروط انسانی راہداری کا مطالبہ۔
4. عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنا: مختلف ملکوں کے پارلیمان، سیاسی نمائندے اور میڈیا کو متحرک کرکے اسرائیلی مظالم پر دباؤ بڑھانا۔
5. قانونی احتساب: اسرائیل اور اس کے معاون اداروں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر قانونی اور اخلاقی جواب دہی کے کٹہرے میں لانا۔
مارچ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ تمام شرکاء رضاکارانہ بنیادوں پر حصہ لے رہے ہیں اور اپنی مالی ضروریات خود برداشت کر رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت یا ادارے کی جانب سے مالی سرپرستی موجود نہیں، جس سے اس تحریک کا خالصتاً شہری، غیرسیاسی اور پرامن ہونا ثابت ہوتا ہے۔
مصر سے تعاون اور رفح پر دھرنا:
مارچ کے منتظمین نے مصری حکومت اور تمام متعلقہ سفارت خانوں سے باقاعدہ رابطے کیے ہیں۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی سرگرم کارکن کارن موینیہن نے بتایا کہ اس مارچ کا مقصد مصر پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں بلکہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانا ہے تاکہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی حکومت یا ادارہ اسرائیلی جرائم کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا، تو وہ بھی نسل کشی میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا۔ تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں بھولے گی۔
مارچ کا اختتامی مرحلہ رفح کراسنگ پر دھرنے کی صورت میں ہوگا، جہاں شرکاء امداد کی ترسیل، بارڈر کے کھلنے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے پرامن قیام کریں گے۔
اسرائیلی منصوبہ اور اقوامِ متحدہ کا موقف:
مارچ کا پس منظر اُس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب اسرائیل نے حال ہی میں غزہ کو امداد کی ترسیل کے لیے ایک نجی کمپنی کے ذریعے انتظام کی تجویز دی ہے۔ تاہم، اقوامِ متحدہ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ:
اس سے صرف غزہ کے ایک حصے تک امداد محدود ہو جائے گی۔ اس منصوبے میں سیاسی اور عسکری مقاصد شامل ہیں اور یہ لاکھوں افراد کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرتا، بلکہ مزید بے دخلی اور نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
“المسيرة العالمية إلى غزة” صرف ایک مارچ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ قافلہ دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کا ایک پرامن مگر مضبوط پیغام ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی اب جرم ہے۔ غزہ کی بے بس عوام کے ساتھ یہ یکجہتی نہ صرف ان کی آواز بن رہی ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جگانے کا ایک عملی مظاہرہ بھی ہے۔ قافلۂ صمود… مظلوموں کی امید، اور ظالموں کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔

مصری حکومت کی جانب سے شرکا کی پکڑدھکڑ

تاہم قافلے کی مصر میں آمد کے بعد صورتحال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ مصری حکومت نے ابھی تک اس قافلے کے حوالے سے کوئی واضح سرکاری بیان جاری نہیں کیا، جبکہ مصری میڈیا نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس سے حکومتی اداروں میں الجھن اور اضطراب کا تاثر ابھرا ہے۔ خاص طور پر قاہرہ ایئرپورٹ پر اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب تین الجزائری وکلا مصطفاوی سمیر، محمد عاطف بریکی اور عباس عبد النور کو قافلے میں شرکت کی غرض سے مصر پہنچنے پر بغیر کسی قانونی وضاحت کے حراست میں لیا گیا۔
الجزائری وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن فتیحہ رُویبی نے سوشل میڈیا پر انکشاف کیا کہ ان وکلا کو قاہرہ ایئرپورٹ پر شام پانچ بجے (الجزائر کے وقت کے مطابق) روک لیا گیا۔ ان کے ہمراہ قافلے میں شریک مزید 37 رضاکار بھی تھے۔ حکام نے ان کے موبائل فون، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ضبط کر لیں اور انہیں کسی قسم کی قانونی وضاحت دیئے بغیر حراست میں لے لیا۔ رُویبی نے اسے انسانی حقوق، وکلا کے وقار، اور آزادیٔ سفر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور الجزائر کی وزارت خارجہ سے فوری اور سخت اقدام کا مطالبہ کیا۔
ادھر مصر کی معروف انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر عايدة سيف الدولة نے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا: “الحرية لكاسري الحصار من الجزائر” (محاصرہ توڑنے والوں کو آزادی دو، اے الجزائر کے سپوتو!)۔
قاہرہ ایئرپورٹ پر موجود ایک الجزائری کارکن، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، نے “العربي الجديد” سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکام نے بغیر کسی وجہ کے چار گھنٹے تک انہیں روکے رکھا اور قوی امکان ہے کہ انہیں زبردستی واپس بھیجا جائے گا۔ اس کارکن کے مطابق، مصر کے حکام کی جانب سے ہوٹلوں میں مقیم بعض رضاکاروں کو صبح کے وقت واپس ایئرپورٹ لایا گیا ہے تاکہ انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکے۔
اس بڑھتے دباؤ کے باوجود، قافلے سے منسلک رضاکاروں نے دیگر کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور قاہرہ پہنچ کر قافلے میں شرکت کریں۔ ان کے بقول، یہ قافلہ محض امداد لے کر نہیں جا رہا بلکہ یہ ایک علامتی اور سیاسی پیغام بھی ہے جو فلسطین کے حق میں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔

Related Posts