کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (پہلا حصہ)
"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ زمین کے کسی کونے میں واقع ایک چھوٹا سا خطہ ہے، جہاں ایٹمی طاقت، جدید ترین ٹیکنالوجی اور فوجی دبدبہ کا زعم رکھنے والی ایک ریاست اپنے ہی سائے سے خوفزدہ ہے۔ نام ہے اس کا: اسرائیل۔ اور سوال ہے: “کیا یہ ریاست 2040 تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟”

یہ سوال کسی عرب یا مسلمان مؤرخ کا نہیں، نہ ہی کسی حماس سپہ سالار کا خواب، بلکہ خود اسرائیل کے مؤقر اخبار ہآرتس کے مدیرِ اعلیٰ الوف بِن نے اٹھایا ہے اور انداز ایسا کہ گویا زوال کے سفر کا ایک مکمّل خاکہ آنکھوں کے سامنے کھینچ دیا ہو۔

جب سلطنتیں خود کو نگلنے لگتی ہیں:
الوف بِن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تاریخ کے صفحات پر کچھ سوال کبھی خواب لگتے ہیں، لیکن جب وہ حقیقت میں بدلتے ہیں تو دنیا کے نقشے از سرِ نو ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ سنہ 1970ء میں سوویت مؤرخ اندريه امالريک نے ایک جرأت مندانہ سوال اٹھایا تھا: “کیا سوویت یونین 1984ء تک زندہ رہے گا؟”

اس سوال پر دنیا ہنسی، اہلِ اقتدار نے استہزاء کیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ محض مؤرخ نہیں، مستقبل کا نباض تھا۔ سوویت یونین جنگ جیت کر بھی ہار گیا، کیونکہ جو جنگ ریاست کے اندر لڑی جائے، اس میں دشمن کا چہرہ نہیں ہوتا، صرف شکست کے سائے ہوتے ہیں۔

اسرائیل: اپنی دیواروں سے ڈرتا ہے:
الوف بِن کے قلم سے نکلے الفاظ فقط خبروں کا احوال نہیں، بلکہ ایک داخلی کرب کی صدائیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
“اسرائیل کو ایٹم بم سے نہیں، اندرونی شکست سے ڈرنا چاہیے۔ یہاں عدالتیں کمزور، قیادت خود پرست اور عوام بے یقینی کا شکار ہیں۔”

شواط، کیفے، اور بازاروں کی رونق شاید وقتی ہو، مگر دل و دماغ میں ایک ان دیکھا خلا گھر کر چکا ہے۔ معاشرہ وہی ہوتا ہے جو اپنے اختلاف کو برداشت کرے، نہ کہ ہر نقاد کو غدار، اور ہر سوال کو سازش قرار دے۔

نیتن یاہو: اقتدار کا مجسمہ، اعتماد کا ملبہ:
جب قیادت آئین سے زیادہ اپنی ذات کی حفاظت میں مشغول ہو، تو ریاست قوم نہیں رہتی، گروہ بن جاتی ہے۔ نیتن یاہو آج وہی راگ الاپ رہے ہیں جو ماضی کے ہر زوال پذیر بادشاہ نے گایا:

“میرے بغیر کچھ نہیں بچے گا۔”
وہ 7 اکتوبر کے حملے پر سازشی نظریات پھیلاتے ہیں، اپنے ناقدین کو دشمنوں کے ساتھ کھڑا کرتے ہیں اور آئینی توازن کو ذاتی اقتدار کی زینت بناتے جا رہے ہیں۔ مگر تاریخ کے آئینے میں ایسی قیادتوں کا انجام خاک اور گمنامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

غزہ: جو اسرائیل کو نگل رہا ہے:
غزہ اب صرف میدانِ جنگ نہیں، ایک علامت ہے — اس جنگ کی جو اسرائیل کے اندر لڑی جا رہی ہے۔ الوف بِن خبردار کرتے ہیں:
“جیسے سوویت یونین افغانستان میں الجھ کر بکھر گیا، ویسے ہی اسرائیل غزہ میں تحلیل ہو سکتا ہے۔”
جب فوج فخر سے بتاتی ہے کہ ایک “دشمن” کو مارا، مگر اس کے بدلے میں پورا معاشرہ اندر سے مر رہا ہو، تو فتح شکست کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

ہجرت: جب اپنی ہی سرزمین اجنبی لگے:
بچوں کو لے کر اسرائیلی خاندان ہر ہفتے آسٹریلیا کی پروازیں پکڑ رہے ہیں۔ یہ محض نقل مکانی نہیں، بلکہ ایک اعتراف ہے کہ یہاں اب امن نہیں، یقین نہیں اور کل کا کوئی تصور نہیں۔ ایسی ہجرتوں کی صدا بہت گہری ہوتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ریاستوں کی فصیلیں جب صرف فولاد سے بنتی ہیں اور دلوں کو جگہ نہیں دیتیں، تو وہ پائیدار نہیں رہتیں۔

شیخ یاسین پیش گوئی یا تاریخ کی سرگوشی؟

الوف بِن سوال اٹھاتے ہیں:
“کیا شیخ یاسین کی پیش گوئی کہ اسرائیل 2040 تک مٹ جائے گا، محض نعرہ ہے، یا آنے والے وقت کی صدا؟”
اس کا جواب اس میں نہیں کہ اسرائیل کتنے ایف-35 طیارے رکھتا ہے، کتنی آئرن ڈومز بچھا چکا ہے، بلکہ اس میں ہے کہ کیا وہ اپنی وحدت، انصاف اور قیادت کو بچا پایا ہے؟

بچنے کا ایک آخری راستہ:
الوف بِن کی آواز، دراصل ایک صدا ہے ان تمام اہلِ فکر و دانش کے لیے:
“اگر اسرائیل کو بچنا ہے، تو جنگ نہیں، مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔ زخم نہیں، مرہم بانٹے۔ قیادت کو مسیحا نہیں، خدمت گزار بنایا جائے۔”
ورنہ وہ وقت دور نہیں جب تاریخ شیخ یاسین کے جملے کو صرف ایک دشمن کی للکار نہیں، بلکہ ایک مکمل ہوتی پیش گوئی کے طور پر رقم کر دے۔

اسرائیل آج خود کو سوویت یونین کے انجام سے بچا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ امالريک کی صدا سنے، جو مر گیا مگر وقت سے پہلے سچ بول گیا۔ وگرنہ زوال فقط ایک دشمن کی گولی سے نہیں آتا، وہ اندر سے چپ چاپ، دبے پاؤں آتا ہے اور پھر کوئی قلعہ باقی نہیں بچتا۔ (بحوالہ الجزیرہ)

Related Posts