کرکٹ کے کنگ بابراعظم کا عروج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دُنیا بھر میں نمبر ون سمجھے جانے والے لوگوں کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی قصہ یا کہانی ہوا کرتی ہے۔ عموماً ایسی کہانیاں جہدِ مسلسل، مستقل مزاجی، مایوسیوں اور اپنے شعبۂ زندگی میں مسلسل محنت سے عبارت ہوتی ہیں۔ ٹی 20 اور ون ڈے کے نمبر ون بیٹر بابر اعظم کی کہانی بھی ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔

سن 2007ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایک ٹیسٹ میں اپنے ایک معمولی کردار سے لے کر ملک کی ٹیسٹ ٹیم کی صف میں پہنچنا اور پھر بطور کپتان قومی ٹیم کی ذمہ داریاں سنبھالنا بہت بڑی چھلانگ کہی جاسکتی ہے۔ اسپورٹس رائٹر قمر احمد کے یہ الفاظ بابر اعظم کی فتوحات کا اعتراف کہے جاسکتے ہیں۔ 

آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں بابر اعظم کا اضافہ پچھلے چند سالوں میں بطور بلے باز ان کی نمایاں ترقی کے ساتھ ہوا۔ بابر اعظم نے گروپ کرکٹ کے ذریعے  قومی ٹیم تک اپنا راستہ بنایا۔ ان کا سفر 2008 میں انڈر 15 ورلڈ چیمپئن شپ سے شروع ہوا اور پھر انہوں نے 2010 اور 2012 میں دو انڈر 19 ورلڈ کپ بھی کھیلے جہاں وہ پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن کر ابھرے۔ 

بابر کو 2015 میں قومی ٹیم میں شامل کیے جانے سے قبل کم عمر گروپ ڈومیسٹک کرکٹ میں باقاعدگی سے ٹاپ اسکور کرنے کا اعزاز حاصل تھا اور انہوں نے زمبابوے کے خلاف ہوم ون ڈے سیریز کے دوران اپنا پہلا کرکٹ میچ کھیلا تھا۔ یہ ایک نایاب ریکارڈ ہے کیونکہ سکیورٹی خدشات کے باعث بابر اعظم عالمی سطح پر مقام بنانے میں تنہائی کا شکار رہے۔ 

جب آئی سی سی نے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 منعقد کیا تو اس وقت پاکستان کو معلوم تھا کہ ان کے پاس بابر اعظم جیسا روشن ستارہ موجود ہے تاہم بابر اعظم زیادہ دیر تک آئی سی سی کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکے کیونکہ اپنے دوسرے ہی میچ میں میزبان انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی حیرت انگیز جیت میں بابر اعظم نے 66 گیندوں پر 63 رنز بنائے جن پر سب کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ 

بطور ایک عالمی کھلاڑی بابر اعظم نے خوبصورت کور ڈرائیوز، کریز پر اپنے پر سکون انداز اور اہمیت کے حامل رنز بنا کر شائقینِ کرکٹ کی توجہ حاصل کر لی۔ کرکٹ کے ماہرین کو بھی محسوس ہوا کہ بابر اعظم عالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

پھر نیوزی لینڈ کے خلاف بھی بابر اعظم نے ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا اور کرکٹ ورلڈ کپپ کی پہلی سنچری اسکور کر ڈالی۔ پاکستان ایک مشکل پچ پر ہدف مکمل کرنے میں کامیاب ہوا اور ابھی 5 گیندیں باقی تھیں جبکہ بالرز کیلئے پچ کافی پرکشش تھی۔ بابر اعظم نے اس ٹورنامنٹ میں تاریخ رقم کرتے ہوئے 67.61 کے اسٹرائیک ریٹ سے 474 رنز بنا کر جاوید میانداد کا کرکٹ ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ توڑ دیا۔

آج کل ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں بابر اعظم ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں جس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے صرف 84 میچز کھیل کر 59.18 کی اوسط اور 16 سنچریاں بنا کر یہ مقام حاصل کیا ہے۔ اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ کے پہلے 2 سالوں میں بابر اعظم کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں کرسکے، تاہم سال بہ سال مسلسل بہتری نے انہیں 2018ء کے آغاز سے قبل ہی بہترین ٹیسٹ بیٹرز کی فہرست میں شامل کردیا۔

ایک اور عنصر جس نے بابر اعظم کو اپنے کیرئیر کو مزید بہتر کرنے میں مدد دی، وہ نیٹ پریکٹس میں ان کا بدلا ہوا انداز تھا۔ اپنے کیرئیر کے ابتدائی مراحل میں پریکٹس سیشن کو عموماً اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا جتنا کہ بابر اعظم نے لیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ سابق بھارتی کپتان ویرات کوہلی سے بات چیت سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ نیٹ پریکٹس کتنی اہم ہوا کرتی ہے۔

مسلسل بہتر کارکردگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بابر اعظم مقامی پاکستانی بولرز کے ساتھ نیٹ پریکٹس کرتے ہیں جو تیز رفتاری، بائیں اور دائیں بازو کے اچھے اسپن اسٹائل کیلئے مشہور ہیں۔ دنیائے کرکٹ میں پاکستانی بولرز کی اہمیت نمایاں سمجھی جاتی ہے۔

اسی قبیل کے کئی پاکستانی کھلاڑی چند سالوں کے بعد ٹیم میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ چھوڑ کر رجعت پسندی کا شکار ہونے لگتے ہیں تاہم بابر اعظم تاحال اس خرابی سے بھی محفوظ ہیں۔ اپنے کیرئیر میں بہت سی نمایاں کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود بابر اعظم اب تک پاکستان کے بہترین بیٹرز میں سے ایک ہیں جن کا کردار ٹیم کی جیت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ 

Related Posts