کیا بڑے معاملات طے پاچکے ہیں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسٹیبلیشمنٹ اور پی ڈی ایم کے مابین جاری کشمکش کی صورتحال میں دن بدن بہتری آتی جا رہی ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسٹیبلیشمنٹ نے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر یہ میدان ان کے لئے خالی چھوڑ دے جن کا یہ ہے۔ اگر حکومت اپوزیشن پر حاوی آئے تو وہ اپوزیشن کا ساتھ دے اور نہ ہی اپوزیشن کے حاوی آنے کی صورت میں حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ گویا

سیاست کے معاملات مکمل طور پر سیاستدانوں پر چھوڑ دئے جائیں۔ مگر معاملہ اتنا سادہ ہو نہیں سکتا۔ پچھلے چند سالوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے وہ صرف غیر معمولی نہیں، بہت ہی غیر معمولی تھا۔ اتنا غیر معمولی کہ اولا اسٹیبلیشمنٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پردوں سے باہر آکر بڑے اقدامات کئے۔ ردعمل میں نواز شریف جی روڈ یاترا پر نکلے تو یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب برطرف کیا گیا وزیر اعظم چپ چاپ گھر نہیں گیا بلکہ اس نے سخت عوامی ردعمل دیا۔

باور کیا گیا کہ اس ردعمل کے نتیجے میں اسٹیبلیشمنٹ کو بیک فٹ پر دھکیلا جاسکے گا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اسٹیبلیشمنٹ بیک فٹ پر جانے کے بجائے مزید پیش قدمی کرتی نظر آئی۔ یوں یہ بات بالکل واضح ہوئی کہ وہ طے کردہ ایجنڈے کو ہر حال میں مکمل کرنا چاہتی ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد جو حکومت مسلط ہوئی یا کی گئی وہ بھی دانشمندی مندی کے بجائے سیاسی ابتری میں اضافے کی راہ پر گامزن ہوگئی۔

اس نے عوام کی بہتری کے بجائے اپوزیشن کی ابتری اپنا ون پوائنٹ ایجنڈہ بنا لیا۔ پہلی بار ایک ایسا وزیر اعظم دیکھنے کو ملا جو وزارت عظمی میں بھی اپوزیشن والی زبان بول رہا تھا۔ شاید وہ یہ تسلیم کر رہا تھا کہ دلوں کا وزیر اعظم تو کوئی اور ہے لھذا دلوں کے وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کا رول ہی پلے کیا جائے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علالت اور علاج کے لئے بیرون ملک روانگی کے نتیجے میں سال ڈیڑھ ایسا ضرور آیا جس میں اپوزیشن کی جانب سے ٹھراؤ کی صورتحال رہی، لیکن اس عرصے میں سلیکٹڈ وزیر اعظم کا اپوزیشن والا کردار بدستور جاری رہا۔ ان کی جانب سے دو باتوں کی مستقل تکرار جاری رہی۔ ایک یہ کہ وہ اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ اور دوسری یہ کہ این آر او نہیں دوں گا۔ یہ وزیر اعظم کا ہی رویہ اور صفر کارکردگی کا شاخسانہ ہے کہ اپوزیشن ان کے خلاف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر باسانی منظم ہوگئی۔

اپوزیشن کو اندازہ تھا کہ اسے بھی پرانی روایتیں توڑ کر تحریک اٹھانی ہوگی ورنہ ایک پیج اس کی تحریک کو کچلنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ چنانچہ گوجرانوالہ والے پہلے ہی جلسے سے نہایت جارحانہ قسم کی روایت شکنی کی گئی۔ یہ روایت شکنی اسٹیبلیشمنٹ کی روایت شکنی کا ہی جواب تھا۔ جی ٹی روڈ والی یاترا کے دوران نواز شریف جب مسلسل یہ کہتے پائے گئے کہ مجھے کیوں نکالا ؟ تو میڈیا نے بھی مسلسل یہ کہنا شروع کردیا کہ نواز شریف نام کیوں نہیں لیتے ؟ وہ مجھے کیوں نکلا والا سوال کس سے پوچھ رہے ہیں؟ نکالنے والے کا نام کیا ہے ؟ سو اب ڈھائی سال بعد نواز شریف نام لے لے کر بتا رہے تھے کہ انہیں کس نے نکالا۔

اس جارحانہ حکمت عملی کو میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنوا کر روکنے کی کوشش کی گئی مگر بات بنی نہیں۔ نام لینے والی حکمت عملی اپوزیشن کی جانب سے جاری رکھی گئی۔ اس کے نتائج بھی نکلے۔ جو پردوں کے باہر آکر کھیل رہے تھے انہیں یہ کہتے ہوئے پردوں میں واپس لوٹنا پڑا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ہی اس کی تصدیق نہ کی بلکہ ڈسکہ میں این اے 75 پر ہونے والی دھاندلی پر الیکشن کمیشن کا سخت ایکشن بھی اسٹیبلیشمنٹ کے سیاست سے لاتعلق ہونے کا بظاہر ثبوت نظر آتا ہے۔

مگر سوال وہی ہے کہ کیا بات بس اتنی ہی سادہ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ سیاست سے لاتعلق ہوجائے گی اور اپوزیشن موجودہ حکومت کو گرا کر ان ہاؤس تبدیلی یا فریش الیکشنز کی جانب بڑھ جائے گی اور اسے ایسا کرنے دیا جائے گا ؟ نہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ معاملہ اتنا سادہ ہو۔ فرض کیجئے پی ڈی ایم جماعتیں موجودہ حکومت کو گرا دیتی ہیں اور خود اقتدار میں سنبھال لیتی ہیں تو کیا وہ چپ چاپ حکومت کریں گی ؟ اولا تو یہ کہ وہ جوابی کار روائی کرسکتی ہیں۔ لیکن فرض کیجئے ان کا ایسا کوئی ارادہ نہ بھی ہو تو اس پر یقین کون کرے گا؟

موجودہ حکومت کے گرنے اور پی ڈی ایم جماعتوں کے براسر اقتدار آنے کے لئے لازم ہے کہ پہلے پس پردہ کچھ اہم معاملات طے پا جائیں۔ یہ اہم معاملات ملک کو کسی مزید کشمکش کے بجائے سیاسی استحکام کی جانب لے جانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی ہی ہوسکتی ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ جن کے مابین پچھلے سات آٹھ سال سے براہ راست تصادم کی صورتحال ہے، ان میں سے ایک فریق اس وقت بھی با اختیار ہے۔ ایسے میں دوسرا فریق بھی بااختیار ہوگیا تو اسلام آباد اور راولپنڈی ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔

اگر آمنے سامنے نہ بھی ہوں تو شدید قسم کی بداعتمادی کے نتیجے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لھذا اس صورتحال کا تدارک سوچے بغیر پی ڈی ایم کی اقتدار کی جانب کوئی ٹھوس پیش رفت ممکن نظر نہیں آتی۔ پی ڈی ایم کی جانب سے نرم پڑتا لہجہ ڈسکہ واقعے اور اس کے نتائج کے بعد سے نرمی سے آگے بڑھ کر اس حد تک آگیا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ پر اعتماد کے اشارے دئے جا رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کا خاتمہ اسٹیبلیشمنٹ اسی صورت میں قبول کرسکتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز باقی ماندہ ڈھائی سالوں کے لئے بیرون ملک رہنا قبول کرلیں۔ لیکن کیا نواز شریف ایسا کوئی فارمولہ یکطرفہ قبول کر لیں گے؟

کیا وہ دوسرے فریق سے بھی اختیارات کی دنیا سے رخصت ہونے کی شرط نہیں رکھیں گے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس حوالے سےمعاملات عوام کے علم میں لائے بغیر آگے بڑھ چکے ہوں ؟ کہیں مریم نواز نے “میری ایک سرجری ڈیو ہے، جس کے لئے مجھے بیرون ملک جانا ہوگا، مگر نہیں جا رہی” والی بات کے ذریعے اپنی رضامندی کا اشارہ تو نہیں دیا ؟ مفاہمت کی پالیسی والے حمزہ شہباز باہر آچکے اور شہباز شریف کے بھی جلد جیل سے باہر آنے کی باتیں چل رہی ہیں۔

جہاں یہ باتیں چل رہی ہیں وہیں اچانک مریم نواز کی گرفتاری کا امکان بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مریم کو تو وہی گرفتار کرنا چاہے گا جو کسی ممکنہ سمجھوتے کے نتیجے میں اپنی حکومت کا خاتمہ یقینی سمجھ رہا ہو۔ سی کے سمجھوتے کو مریم کی گرفتاری سے ہی ناکام کیا جاسکتا ہے۔ اگر درپردہ کچھ معاملات طے پاچکے ہیں تو پھر یوسف رضا گیلانی کی سینٹ الیکشن میں جیت یقینی سمجھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر معاملات تاحال حل طلب ہیں تو پھر گیلانی صاحب کا جیتنا مشکل نظر آتا ہے۔ سو بے یقینی اور متزلزل سی اعتماد سازی کی یہ فضا تین مارچ کو سینٹ الیکشن کے نتائج سے ہی واضح ہوسکے گی۔ چلئے تین مارچ کو دیکھتے ہیں پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے !

Related Posts