آخری پریم پتر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ع: لکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ کے نظار ےبن گئے۔

محمد رفیع کا یہ گیت ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ ماضی میں جب رابطے کے ذرائع محدود ہوتے تھے تو محبوب خط وکتابت کے ذریعے روابط قائم رکھتے تھے ۔وقت کے ساتھ ساتھ جب فون آیا تو ٹیلی فونز پر دل کا حال بیان ہونے لگا اور موبائل فون کی آمد سے رابطے اور بھی آسان ہوگئے اور خط لکھنے کی روایات قصۂ پارینہ بنتی چلی گئیں۔

گوکہ آج خط لکھنے کا رواج کم ہوچکا ہے لیکن بعض اوقات آج بھی کسی محبوب کو جب پرانے اوراق میں اپنی محبوبہ کا کوئی خط موصول ہوتا ہے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ عاشق ماضی کی حسین یادوں میں کھوجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک خط کا تذکرہ پاکستان میں زبان زدعام ہے۔

ویسے یہ خط عاشقوں والا نہیں ہے ،بلکہ اس میں خوفناک دھمکیاں دی گئی ہیں جیسا کہ ماضی میں عاشق اپنے محبوب کے نام خط میں دھمکیاں دیکر ملنے پر مجبور کرتے تھے اور محبوبہ دوڑی دوڑی نہر والے پل پر آجایا کرتی تھی لیکن اس بار دھمکیاں الگ نوعیت کی ہیں۔

پاکستان کے محبوب امریکا سے آنیوالے مکتوب میں ہمارے وزیراعظم کے نام دھمکیاں آئی ہیں ۔ ماضی میں عاشق جب خط و کتابت کا سہارا لیتے تھے تو ایسے میں ڈاکیے کا فرض نبھانے والے اکثر لوگ محبت نامے تبدیل بھی کردیتے تھے اور بعض اوقات تو عاشق کے خط پہنچاتے پہنچاتے محبوبہ کو ہی بھگالے جاتے تھے۔

عمران خان کو ملنے والے محبت نامے پر بھی حاسدین کا اعتراض ہے کہ خط بھی ڈاکیے کی کوئی چال ہے جس کے ذریعے ڈاکیہ عاشق کومحبوبہ سے متنفر کرکے خود بھگانے کے چکر میں ہے۔

اب یہاں ڈاکیہ سفیر کو کہا جائے یا پوسٹ ماسٹر سے شاہ محمود قریشی کو تشبیہ دی جائے ،بہرحال خط تو عمران خان کو مل چکا ہے اور محبوبہ کی بے وفائی پرعمران خان سیخ پا ہوچکے ہیں۔ اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ رقیب اپوزیشن نے یہ کھیل کھیلا ہے یا پوسٹ ماسٹر خود محبوبہ کو بھگانے کے چکر میں ہے تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ محبوبہ کا خط ملنے کے بعد عاشق کا برا حال ہے۔

کہاں محبوبہ کی زلفوں کے اسیر عاشق کے بلند بانگ دعوؤں اور دھمکیوں سے رقیب کے گھر کے درودیوار ہل جایا کرتے تھے اور آج وہ عاشق اس ایک خط کی وجہ سے اپنا ہوش کھوچکا ہے اور کوئی در نہیں چھوڑ اجہاں سے مدد کی درخواست نہ کی ہو۔

عاشقِ زار نے ڈاکوؤں کو اپنا بڑا بھائی مان لیا، دہشت گردوں کو سب کچھ دینے کیلئے تیار تھے، یہاں تک کہ خود اپنے حقوق سے محروم مفلس و بدحال بلوچوں تک سے کچھ پانے کی امید میں سرپٹخا لیکن اس کمبخت خط نے ایسا رلایا کہ آج ملک کا بچہ بچہ اس خط کو لیکر عاشق سے اظہار افسوس کررہا ہے۔

آج عاشق کا آخری امتحان ہوسکتا ہے اور عاشق کو قوی امید ہے کہ یہ خط اس کی محبوبہ نے لکھا ہے ۔رقیب اس کی محبوبہ سے ہاتھ ملا چکا ہے لیکن پھر بھی اس کو آس ہے کہ وہ محبوبہ اور رقیب کی سازشوں کو ناکام بناکر عشق کے اس میدان میں ڈٹ کر کھڑا رہ سکتا ہے۔

رقیب کا دعویٰ ہے کہ وہ محبوبہ نہیں بلکہ اقتدار نامی حسینہ پر فریفتہ ہے اور عاشق کی محبوبہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن دیوانہ عاشق در در پر یہی پریم پتر لہر ا لہر ا کر محبوبہ کی بے وفائی کا راگ الاپ رہا ہے ۔رقیب پر سازش کا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔

شاید عاشق کو یقین ہے کہ بیوفائی پر مبنی یہ خط اس کو دیکھنے والوں کی ہمدردی دلوادے لیکن شائد اب ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے تمام قصہ دیکھ چکے ہیں اور انہیں عاشق، محبوبہ، رقیب اور اقتدار نامی حسینہ کے تمام قصے ازبر ہیں ۔اس لئے ہوسکتا ہے کہ محبوبہ کو گنواکرخط لیکر دردر بھٹکنے والے مجنوں عاشق کو رقیب کے ساتھ رخصتی کے بعد اقتدار نامی حسینہ کا دیدار بھی کرنانصیب نہ ہو۔
بقول شاعر:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

Related Posts