ٹیپ بال کرکٹ کا بڑھتا رجحان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں اگر ہم کھیلوں کی بات کریں تو سوائے کرکٹ کے اور کچھ نظر نہیں آتا، جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے، لیکن حقیقت بالکل یہی ہے، ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی اور کھیل اس ملک میں نہیں کھیلا جاتا، مگر جتنی پذیرائی کرکٹ کو ملتی ہے شاید ہی کسی اور کھیل کو ملتی ہو اور دوسرے کھلاڑی بھی اس بات سے کافی پریشان ہوتے ہیں کہ وہ کرکٹرز سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور اپنے کھیل میں اپنا نام بناتے ہیں مگر اُن کو حکومت اور عوام کی طرف سے کوئی پذیرائی نہیں ملتی، یہاں تک کے بین الاقوامی سطح پر تمغے بھی جیت لیتے ہیں۔

اب بات کرکٹ کی ہورہی ہے تو رمضان کے مہینے میں ٹیپ بال کرکٹ اور بالخصوص نائٹ ٹیپ بال کرکٹ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی دیکھنے کو ملتی ہے، پورے پاکستان میں ہر سڑک پر نوجوان آپ کو ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے، اور اب بات صرف سڑک تک محدود نہیں رہی، بڑے بڑے گراؤنڈز میں بہترین قسم کے ٹورنامنٹس منعقد کروائے جاتے ہیں جن کے لئے لاکھوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں اور اب تو بڑے بڑے برینڈز بھی ان ٹورنامنٹس کو اسپانسر کرتے ہیں۔

جہاں تک بات ہے ٹیپ بال کے کھلاڑی کی چاہے تو وہ بلے باز ہوں یا بولرز، پاکستان کا بچہ بچہ ان کو جانتا ہے، مثال کے طور پر تیمور مرزا، اسد شاہ (مسٹر تھری سکسٹی)، خرم چکوال، بہادر لیفٹی، ظہیر کالیا، داؤد پٹھان اور ان جیسے نہ جانے کتنے ٹیپ بال کرکٹ کے اسٹارز ہیں جو اپنے نام سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں، ان کا رہن سہن اور اخراجات کسی انٹر نیشنل کرکٹرز سے کم نہیں ہیں، انہیں بھی باقاعدہ طور پر مختلف ٹیمیں اپنے ساتھ کھلانے کے لئے بھاری معاوضہ دیتی ہیں، اگر یہ کہیں ٹیپ بال بھی ایک پروفیشنل کرکٹ ہے تو غلط نہ ہوگا۔

رمضان المبارک میں کراچی کا ہر علاقہ اپنے علاقے کے نام سے ٹورنامنٹ منعقد کراتا ہے، مثال کے طور پر لانڈھی سوشل گراؤنڈ میں آل پاکستان اوپن ٹیپ بال چیمپئن شپ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتا ہے، گلشن معمار کا معمار کپ ہوتا ہے، ملیر کینٹ کا کینٹ کپ منعقد ہوتا ہے، اسٹیل ٹاؤن میں اسٹیل ٹاؤن کپ ہوتا ہے اور اسی طریقے سے کراچی کے ہر چھوٹے بڑے علاقے اس ریس میں حصہ لیتے ہیں۔

اب بات سمجھتے کی یہ ہے کہ جب ایک کرکٹ میں اتنے لوگ شامل ہوتے ہیں اور تماشائی بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتے ہیں اور اس کے کھیل سے گراؤنڈ محدود محظوظ ہوتے ہیں، اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی پسندیدہ کھلاڑی اچھا چھکا لگادے یا کوئی پسندیدہ بالر بہترین آؤٹ کردے تو لوگ اُس کو آکر خوشی کے طور پر گراؤنڈ میں ہی نذرانہ دیتے نظر آتے ہیں، جوکہ ایک اچھی چیز بھی ہے کہ شائقین کرکٹ کھلاڑی کے ٹیلنٹ کو سراہتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

اب جب یہ ٹیپ بال کرکٹ اتنے اچھے طریقے سے پاکستان کے ہر شہر میں جاری و ساری ہے، تو کیا حکومت کا یہ فرض نہیں بنتا کہ اس ٹیپ بال کرکٹ کو بھی As a Professional اپنا لیا جائے اور اس کرکٹ کے بھی پاکستان کی سطح پر بڑے مقابلے حکومت پاکستان منعقد کروائے، جہاں نا صرف حکومت پاکستان ان کرکٹرز کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے میں مدد ثابت ہوسکتی ہے بلکہ جو اس سارے پروسس میں کیش منی شامل ہوتی ہے، اس سے ٹیکس بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کیونکہ جب حکومت پاکستان اس کو منعقد کرے گی تو ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوگا اور وہ پھر ترتیب سے چلے گا۔ اس طریقے سے کرکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی اور پاکستان کا ایک سافٹ امیج دنیا بھر میں جائے گا کیونکہ یاد رکھیں ٹیپ بال کرکٹ کے مقابلے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں منعقد ہوتے ہیں، اگر پاکستان اس پر عمل کرتا ہے اور دنیا کی دوسری ٹیموں کو پاکستان بلا کر کوئی ایونٹ منعقد کرتا ہے تو یہ چیز بھی پاکستان کے حصے میں آئے گی اور پاکستان وہاں سے آمدنی کمانے کا ذریعہ حاصل کرسکتا ہے۔

Related Posts