چینی خور پاک دامن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

انہوں نے سیاست سے ہاتھ کھینچا تو دیکھے آپ نے نتائج؟ کھل گیا نا پول بھان متی کے کنبے کا؟ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے کچھ نام نہاد سیاسی تجزیہ کار بہت زور و شور سے ہمیں یہ بتا رہے تھے کہ پی ڈی ایم کا لاہور والا جلسہ ناکام ہوچکا۔ سو اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کو بھی ناکام ہی سمجھا جائے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کا لاہور والا جلسہ واقعی ناکام تھا اور اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کو بھی ناکام سمجھنا لازم ہوچکا تھا تو پھر مکرر سہ کرر یہ اعلانات کیوں آتے رہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں؟

اور اس تازہ عدم تعلق کے نتائج ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا کے اخراج کی صورت کیوں ظاہر ہوئے؟ عجیب بات نہیں کہ ناکام پی ڈی ایم ہوئی اور پھررر کرکے ہوا پی ٹی آئی کے غبارے سے نکل گئی؟ پی ٹی آئی کی یہ عبرتناک شکست کسی کی تو کامیابی ہے۔

اگر پی ڈی ایم کی نہیں تو کس کی ہے یہ کامیابی؟ آخر وہ کون ہے جس نے اپنی جارحانہ سیاسی حکمت عملی سے کسی کی سیاست میں مداخلت ختم کرانے کا حوصلہ افزا آغاز کرایا؟ اگر یہ پی ڈی ایم نہیں تو کس کی کامیابی ہے کہ سیالکوٹ والی نشست پر حکومت کی بدترین دھاندلی کے حقائق قومی میڈیا کھل کر پیش کرسکا؟

سوچنا تو ہوگا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اعتماد کہاں سے حاصل ہوا کہ سالوں سے دبے فارن فنڈنگ کیس پر مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے اور الیکشن کمیشن کھل کر کہہ رہا ہے کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب ضمنی الیکشن والے روز چیف الیکشن کمشنر کو دستیاب نہ تھے اور انتخابی عملہ اغوا ہوا۔ اگر پی ڈی ایم کی تحریک برپا نہ ہوتی یا ہوتی مگر ناکام ہوئی ہوتی تو کیا تب بھی ایسا ہی ہونا تھا؟ کیا تب بھی ضمنی انتخابات کا نتیجہ یہی آتا؟ کیا تب بھی چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ بینچ کا دباؤ برداشت کرکے اس موقف پر قائم رہتے کہ وہ سینیٹ الیکشن میں آئین کے دائرے سے باہر نہیں نکلیں گے؟

نام نہاد تجزیہ کار پی ڈی ایم کی ایک ناکامی یہ بھی بتاتے آرہے تھے کہ پی ڈی ایم تو کہہ رہی تھی کہ ہم پارلیمنٹ سے استعفے دیں گے اور اب یہ استعفوں کے بجائے سینیٹ الیکشن لڑنے جا رہی ہے لہٰذا اسے بھی پی ڈی ایم کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ یہ بھی ایک نرالی ہی ناکامی بتائی جا رہی تھی کیونکہ اس ناکامی کے نتائج سلیکٹڈ وزیراعظم کے چہرے پر اڑتی ہوائیوں کی صورت ظاہر ہو رہے تھے۔ اگر سینیٹ الیکشن لڑنے کا فیصلہ ناکامی پی ڈی ایم کی تھی تو اس فیصلے سے اوسان حکومتی جماعت کے کیوں خطا نظر آئے؟

بالخصوص یوسف رضا گیلانی کا بطور امیدوار اسلام آباد سے سامنے آنا تو پی ڈی ایم کی ایسی موو ہے کہ گیلانی کی فتح و شکست پر وزیر اعظم کے رہنے یا جانے کا انحصار سمجھا جا رہا ہے۔ کیا ایسی موو ناکام لوگ کیا کرتے ہیں؟ اسلام آباد کے باخبر حلقے تو یہ تک بتا رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے دو انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حکم دیا کہ معلوم کرکے بتایا جائے کہ یوسف رضا گیلانی کے پیچھے صرف پی ڈی ایم ہی ہے یا کوئی اور بھی؟

آخر کون ہے وہ ممکنہ ”کوئی اور” جس پر وزیر اعظم کو شک ہے؟ کہیں وہ اپنے من پسند امپائر پر تو شک نہیں کر رہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا پی ڈی ایم جس امپائر کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کا ہدف رکھتی ہے وہ اسی امپائر سے اپنے حق میں سیاست میں مداخلت کرائے گی؟ ایسا کوئی ایسا ہی شخص سوچ سکتا ہے جس کے حواس بالکل ہی شل ہوچکے ہوں۔ یا پھر کوئی ایسا جس کی سیاسی ولادت کسی مقدس میٹرینٹی ہوم میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طور پر ہوئی ہو۔

چلئے یہ مان کر آگے بڑھتے ہیں کہ پی ڈی ایم ناکام ہوچکی ہے۔ پی ڈی ایم کی ناکامی اب تک دو بڑی کامیابیاں تو حاصل کرچکی۔ ایک یہ کہ جنہیں سیاست سے بے دخل کرنے کے لئے یہ کہہ کر حالیہ تحریک شروع کی گئی تھی کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں اسے لانے والوں سے ہے، وہ اس وقت سیاست سے اپنے لاتعلق ہونے کا اعلان ہی نہیں کر رہے بلکہ یہ لاتعلقی نظر بھی آرہی ہے۔ پی ڈی ایم کی ناکامی دوسری بڑی کامیابی یہ حاصل کرچکی کہ ضمنی الیکشن میں بیساکھیوں سے محروم پی ٹی آئی کو دھول چٹا چکی۔ اب پی ڈی ایم کے سامنے تیسری بڑی کامیابی کا مرحلہ ہے۔

یہ ممکنہ کامیابی وہ سینیٹ الیکشن کی صورت حاصل کرنے کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ کامیاب ہوتی ہے یا ناکام یہ تو الیکشن کا نتیجہ دیکھ کر ہی پتہ چلے گا لیکن ناکام پی ڈی ایم اس ہدف کی جانب بڑھتے ہوئے ملکی تاریخ کے واحد خود ساختہ دیانتدار وزیر اعظم کو اس مقام تک تو پہنچا چکی کہ وہ اپنا اقتدار بچانے کے لئے ملک کے سب سے بڑے چینی چور سے بغل گیر ہوچکے ہیں اور اس چینی چور کو ہدف یہ دیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے اراکین قومی اسمبلی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی میں ”چینی” بانٹ کر اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے صادق و امین کے وفادار رہیں۔

ہے نا دلچسپ مقام؟ ملک کی سب سے صادق و امین جماعت پی ٹی آئی ہے، چور صرف پی ڈی ایم والے ہیں اور چینی پی ڈی ایم کے چوروں میں نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے پاک دامنوں میں بانٹنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے ان چوروں کے تو ہاتھ چومنے لائق ہیں کہ سب سے بڑے سیاسی نیلام گھر میں بھی کوئی ان کی بولی نہیں لگا پا رہا۔ کوئی انہیں خرید نہیں پا رہا اور پتہ نہیں کیا کرنا چاہئے ان پاک دامنوں کا جنہیں خریدنے پر اپنی ہی جماعت مجبور ہے۔ جن کے لئے پچاس پچاس کروڑ کے سرکاری فنڈز کا بھی اعلان ہے اور جنہیں چینی کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ایسے میں سوال بس ایک ہی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ اگر چینی بھی ہاتھ سے نکل گئی اور کامیابی بھی نصیب نہ ہوئی تو؟

Related Posts