شہاب/ شہاب نامہ، بائیس حقائق جو جاننا ضروری ہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہاب/ شہاب نامہ، بائیس حقائق جو جاننا ضروری ہیں
شہاب/ شہاب نامہ، بائیس حقائق جو جاننا ضروری ہیں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قدرت اللہ شہاب (مرحوم )اور ان کی شہرہ آفاق کتاب شہاب نامہ کے بارے میں طویل عرصے سے مختلف تنازعات اور مفروضہ جات چلتے رہتے ہیں، آج ان پر بات کرتے ہیں۔

جو صاحبان اس بحث یا کرداروں سے واقف نہیں، انہیں چار پانچ سطروں میں تعارف کرادوں۔ قدرت اللہ شہاب ملک کے معروف بیوروکریٹ رہے ہیں، وہ سول سروس افسر تھے، گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ان کے سیکرٹری بنے، بعد میں سکندر مرزااور پھر صدر ایوب خان کے سیکرٹری رہے ۔

آج کے حساب سے پرنسپل سیکرٹری سمجھ لیجئے۔ قدرت اللہ شہاب صاحب طرز افسانہ نگار بھی تھے، ”شہاب نامہ“ ان کی خود نوشت آپ بیتی ہے ، اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں. اس کتاب نے بے پناہ پزیرائی حاصل کی، اس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے، ایک حلقہ شہاب اور شہاب نامہ پر تنقید کرتا رہا ہے، یہ لوگ اسے طنزیہ آپ بیتی نہیں فکشن کہتے ہیں، شہاب صاحب کو جعلی صوفی اور نجانے کیا کیا کچھ۔۔

حقیقت کیا ہے

اسکا فیصلہ قارئین خود کریں، مگر ضروری ہے کہ نیچے دئیے گئے حقائق پہلے جان لیں
۱: قدرت اللہ شہاب آئی سی ایس (انڈین سول سروس)افسر تھا۔ پاکستان میں سول سروس افسروں کی دو کلاس تھیں، ایک وہ جو پاکستان بننے کے بعد سول سروس میں بھرتی ہوئے، دوسرے وہ جو قیام پاکستان سے پہلے آئی سی ایس امتحان پاس کر کے سول سروس میں آ گئے تھے۔

آئی سی ایس افسر پاکستان میں ایک طرح سے بیوروکریسی کی اشرافیہ تھے، گورا صاحب سمجھ لیں۔ شہاب کو اچھی پوسٹنگ کے لئے حکمرانوں کی خوشامد کی ضرورت نہیں تھی، آئی سی ایس افسر تب بیوروکریسی کی کریم سمجھے جاتے تھے، بڑی پوسٹنگ ان کے لئے کوئی ایشو نہیں تھا۔

2 : آئی سی ایس افسر ایک دوسرے کو بہت عزت اور سپورٹ دیتے تھے، انہیں ہمیشہ بہترین پوسٹنگ ملتی تھیں ، زمینیں وغیرہ الاٹ کرانے یا دیگر فوائد لینے ان کے لئے بہت آسان تھے۔ اس کے باوجود شہاب نے زندگی بھر کوئی زمین یا پلاٹ الاٹ نہیں کرایا، کوئی فیکٹر ی کرائی نہ ہی پرمٹ لیا، کسی بھی قسم کا دھبہ ان کے دامن پر نہیں۔

3 : آئی سی ایس کے اس امتیاز کے باوجود قدرت اللہ شہاب نہایت منکسر مزاج، ڈاﺅن ٹو ارتھ، سادہ مزاج اور انتہائی دیانت دار ، شریف بیوروکریٹ کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بہت سے ملنے والے یہ لکھ یا کہہ چکے ہیں کہ شہاب میں ذرا بھر بھی کروفر یا غرور نہیں تھا، بڑا سادہ لائف سٹائل تھا اور وہ ہر ایک کو عجز اور انکسار سے ملتے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ وہ کراچی میں اپنے فلیٹ سے رکشہ میں (جسے کراچی والے پھٹپھٹی کہتے ہیں) گورنرجنرل ہاﺅس جاتے تھے، رکشہ کے شور سے ناہید سکندر مرزا کی آنکھ کھل جاتی اور وہ بدمزہ ہوتی۔ اس نے شہاب کو کہا کہ کار استعمال کرو، شہاب کا جواب تھا کہ میرا موجودہ گریڈ مجھے سرکاری کار کی سہولت نہیں دیتا۔ ناہید مرزا کی پیش کش کے باوجود شہاب نے کار لینے سے انکار کر دیا۔ برسوں بعد میں پیسے جوڑ کر پرانی کار خریدی۔

4: یہی عجز کا پیکر قدرت اللہ شہاب اپنے وجود میں ایک جری اور نڈر افسر بھی سموئے ہوئے تھا، زندگی کے کئی اہم مواقع پر وہ جرات سے کھڑا ہوگیا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ بنگال کے ایک علاقہ میں مجسٹریٹ تھا، قحط کے دن تھے، شہاب نے سرکاری گودام قحط زدگان کے لئے کھول دئیے تھے، حالانکہ اس جرم کی پاداش میں اس کی نوکری جا سکتی تھی، جیل ہوجاتی۔

امریکیوں کے خلاف بھی وہ ہمیشہ جرات سے کھڑا ہوا اور کہا جاتا ہے کہ اسے ہمیشہ پاکستان میں امریکی سفیر کی ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔کہا جاتا ہے کہ صدر ایوب کی موجودگی میں وزیرخزانہ شعیب جس پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام تھا، اس کے ساتھ شہاب کی تندوتیز جھڑپ مشہور ہوئی۔

5:شہاب کو ہمیشہ جنرل ایوب خان سے منسلک کیا جاتا ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کا حاشیہ نشیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کے مارشل لا سے چار سال پہلے ہی وہ گورنر جنرل غلام محمد کا سیکرٹری بن چکا تھا۔ وہ بعد میں سکندر مرزا کا بھی سیکرٹری رہا۔ یعنی ایوان اقتدار میں اسے ایوب خان نہیں لایا بلکہ وہ ایوب سے کئی برس پہلے ملک کے طاقتور ترین حکمرانوں کا سیکرٹری (پرنسپل سیکرٹری)بن چکا تھا۔

ایوب نے تو حکمران بننے کے بعد شہاب کو صرف برقرار رکھا ، وہ بھی اس لئے کہ انٹیلی جنس رپورٹوں میں اس کے ایماندار اور لائق ہونے کا بتایا گیا۔
6: شہاب کے ناقدین کا خیال ہے کہ اس نے ایوب خان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی روحانیت کو استعمال کیا اور مذہبی ٹچ کے ذریعے اپنی اہمیت بنائی۔

یہ بات اس لئے بھی غلط ہے کہ ایوب خان کوئی مذہبی آدمی تھا ہی نہیں۔ وہ ایک ماڈرن سیکولر آدمی تھا، جو مذہبی نہیں تھااور نہ ہی وہ مذہبی لوگوں یا روحانی شخصیات یا روحانیت وغیرہ کو پسند کرتا تھا۔ ایوب خان کو تصوف کی سمجھ تھی اور نہ ہی کوئی ”بابا “اس کے لئے اہمیت رکھتا تھا۔

7 : یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنے روحانی پہلو کو ہمیشہ چھپا کر رکھا۔ دوران ملازمت تو خاص طور سے اسے پوشیدہ اور لو پروفائل رکھا۔ اس کے دو تین انتہائی قریبی دوستوں (مفتی، اشفاق احمد وغیرہ)کے سوا شائد ہی کسی کو علم ہو ۔اس کے قریبی دوستوں میں احمد بشیر جیسا مارکسسٹ اور ابن انشا، جمیل الدین عالی وغیرہ بھی شامل تھے جو تصوف میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

مفتی نے اپنے سفرنامہ حج میں کچھ باتیں لکھیں اور باقی بہت بعد کے برسوں میں لکھیں۔ مفتی کی مشہور کتاب الکھ نگری جس میں شہاب کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے ، وہ قدرت اللہ شہاب کی وفات کے کئی برس بعد لکھی گئی۔

8 : شہاب پر بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ رائٹرز گلڈ میںشامل نہ ہونے پر اس نے کئی ادیبوں کو ذلیل کیا، جن میں منٹوبھی شامل ہیں۔ یہ بات غلط اور خلاف واقعہ ہے کیونکہ منٹو تو ایوب خان کے حکمران بننے سے تین سال پہلے اٹھارہ جنوری 1955میں انتقال کر گئے تھے ، ایوب خان کا مارشل لا اکتوبر 1958میں آیا۔

9 : سوشل میڈیا پر ایک الزام شہاب کے خلاف یہ بھی لگا کہ اس نے بطور سیکرٹری ایوب خان مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی ۔ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور بے بنیاد ہے۔ قدرت اللہ شہاب مادر ملت اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن سے دو سال پہلے ہالینڈ میں سفیر بن کر جا چکا تھا۔ ایوب کی صدارتی مہم میں شہاب پاکستان آیا ہی نہیں۔ جنگ ستمبر 1965میں بھی شہاب ہالینڈ میں تعینات تھا۔ شہاب جب ڈپٹی کمشنر تھا، تب محترمہ فاطمہ جناح وہاں گئیں تو شہاب نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا ، اس کی تصاویر اخبارات میں چھپیں۔

10 : ایوب دور کے تین ماہ بعد ہی رائٹرز گلڈ قائم ہوا، اس میں اپنے وقت کے تقریباً تمام بڑے ادیب شامل تھے، بابائے اردو مولوی عبدالحق پہلے اجلاس میں شریک تھے، شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید وقار عظیم، شوکت صدیقی، غلام عباس، اشفاق احمد، احمد راہی، شیخ ایاز، امیر حمزہ شنواری،ناصر کاظمی، منیر نیازی بلکہ قرتہ العین حیدر بھی شامل تھیں، بعد میں قرتہ العین حیدر بھارت چلی گئی تھیں۔ گلڈ میں رائیٹ اور لیفٹ کی نامور شخصیات تھیں، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی سے لے کر حفیظ جالندھری اور نسیم حجازی تک۔

گلڈ کے بارے میں تب یہ شک تھا کہ ایوب خان کے لئے ادیبوں کوپھانسے کا جال ہے۔آج ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماسوائے اکا دکا ادیب کے کسی نے ایوب خان کے لئے اس طرح کام نہیں کیا۔

گلڈ حکومتی ہتھیار ثابت نہیں ہوا، یہ سب شکوک غلط تھے۔ البتہ گلڈ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا، کچھ کتابیں چھپیں، کچھ مرحوم یا بیمار ادیبوں کو وظائف وغیرہ ملے ، زیادہ نہیں ہوسکا، مگر اس کی وجہ حکومت نہیں بلکہ ادیبوں کے باہمی جھگڑے تھے۔

گلڈ پر امریکی مفادات کا اسیر ہونے کا الزام بھی لگا، حالانکہ لیفٹ کے کئی ممتاز لوگ اس میں شامل تھے اور خود شہاب چینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا، امریکی اسی وجہ سے شہاب سے نالاں تھے۔

11: آئی سی ایس افسر ہونے کے باوجود قدرت اللہ شہاب نے اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے آٹھ برس پہلے ہی ملازمت سے استعفاد ے دیا تھا۔ جب جنرل یحییٰ خان کا شرابی ٹولہ ملک پر مسلط ہوا تو شہاب کو اندازہ ہوگیا کہ یہ ملک کو تباہ کر دیں گے۔ شہاب نے احتجاجاً اپنی ملازمت سے استعفا دے دیا اور اگلے کئی برس انگلینڈ میں خاموشی سے گزار دئیے۔

12: جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے تین برس تک شہاب کی پنشن بند رکھی اور شہاب کو نہایت مشکل حالات میں گزارا کرنا پڑا۔ فوجی حکومت نے شہاب کو انگلینڈ سے اغوا کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ شہاب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ خراب مالی حالات اور ناکافی خوراک کی وجہ سے ان کی بیوی بیمار ہوگئیں، ان کے گردے خراب ہوگئے، شہاب کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں تھے۔ بروقت مناسب علاج نہ ہونے سے عفت شہاب بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

13: ملازمت چھوڑنے کے بعد شہاب کو کئی مواقع ملے مگر انہوں نے لوپروفائل انداز میں خاموشی سے زندگی گزار دی۔ وہ چاہتے تو بھٹو اور پھر ضیا دور میں منصب حاصل کر سکتے تھے۔ جنرل ضیا نے شہاب کو تعلیم کے حوالے سے ذمہ داری سونپنے کا اعلان بھی کیا، شہاب نے معذرت کر لی۔ اگر مذہبی ٹچ والی بات ہوتی تو اس سے اصل فائدہ جنرل ضیا دور میں اٹھایا جا سکتا تھا، مگر شہاب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

14: یہ ایک بیکار الزام ہے کہ ہر بیوروکریٹ ریٹائر ہونے کے بعد کتاب لکھ کر اپنی صفائیاں پیش کرتا ہے۔ کون سا بیوروکریٹ ؟ ایوب خان سے لے کر آج تک کے ساٹھ برسوں میں دس پرنسپل سیکرٹری آئے ہیں، کسی پرنسپل سیکرٹری نے کتاب نہیں لکھی۔ لکھنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔ وہی ایسا کرتے ہیں جن کا دامن صاف ہوتا ہے۔ شہاب ایسا ہی منفرد، یکتا اور ممتاز شخص تھا۔

15: یہ بھی عجیب الزام ہے کہ دوران ملازمت یہ باتیں لکھتے ، تب خامو ش رہے،ریٹائر ہونے کے بعد کتاب لکھ ڈالی۔بھلے لوگو، دوران ملازمت قواعد وضوابط کی پابندی کتاب لکھنے سے روکتی ہے۔ کتاب لکھی ہی ریٹائرمنٹ کے بعد جاتی ہے بلکہ ریٹائر ہونے کے دو سال بعد۔ دنیا بھر کے جنرل، سیاستدان، انٹیلی جنس افسران، جج اور بیوروکریٹ ریٹائر منٹ کے بعد کتابیں لکھتے ہیں۔

مغربی سماج ایسے معاملات میں بہت حساس ہے، مگر ایسا پوچ اور بچکانہ الزام وہاں کوئی نہیں لگاتا۔ وہاں وائٹ ہاﺅس کے ترجمان سے لے کر صدر کے چیف آف سٹاف تک ہر کوئی اپنی بائیوگرافی لکھتا ہے اور جو کچھ اس نے مشاہدہ کیا، تجربہ کیا، اسے بیان کرتا ہے۔

16: قدرت اللہ شہاب چی گویرا تھا نہ اس نے ایسا دعویٰ کیا۔ شہاب نے کبھی انقلابی ہونے کا اعلان کیا اور نہ ہی سماج سدھار تحریک چلائی نہ ہی سیاست میں حصہ لیا۔ اس کا تو کوئی دعویٰ ہی نہیں ۔ وہ ایک سول سرونٹ تھا، ایک اچھا ، دیانت دار سول سرونٹ۔ بس یہی اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو کہا۔ کبھی روحانیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔

17 : دوران ملازمت توخیر اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بھی شہاب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی روحانیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ ممتاز مفتی کی محبت اور فسانہ طرازی ہے۔ شہاب نامہ کا آخری باب جو تصوف پر ہے، وہ سب سے آخر میں لکھا گیا اور شہاب صاحب کی زندگی میں یہ مواد شائع نہیں ہوا تھا۔ شہاب صاحب کی روحانیت کے حوالے سے اقرار ان کی وفات کے بعد ہی سامنے آیا تو اس سے فائدہ اٹھانے والا الزام ہی ختم ہوجاتا ہے۔

18: ان کی کتاب” شہاب نامہ “ایک شاندار نثری نمونہ ہونے کے ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہے۔ کتاب کو شروع کرو تو پھر اسے الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا اور بلامبالغہ اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے، اردو کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ضخیم کتاب ہے۔ شہاب نامہ کے انسٹھ( 59)ابواب (Chapters)ہیں، ان میں سے ستاون 57پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، ان میں ایسا کچھ نہیں جسے متنازع کہا جائے۔

19: کتاب کا ایک باب بملاکماری کی روح کے حوالے سے ہے، اس میں ایک آسیب زدہ مکان میں رات گزارنے کا احوال بیان کیا گیا جس میں شہاب کے بقول کسی روح نے اسے تنگ کیا، اس کی دلچسپ روداد بیان کی۔ شہاب کے بقول گرامو فون یکایک بجنا شروع ہوجاتا۔

شہاب نے تجربے کے طور پر کلمہ شریف کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر گراموفون پر لکھ دیا تو آواز رک گئی۔ جب کلمہ کا اردو ترجمہ لکھ کر رکھا تو آواز نہ رکی، ایسا صرف عربی میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھنے سے ہوا کہ بجتا گرامو فون بند ہوگیا۔

کچھ لوگوں کا اس باب پر اعتراض ہے کہ یہ ناقابل فہم اور غیر سائنسی بات ہے۔ ان لوگوں کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، مگر ہم میں سے بہت سوں نے جنوں، بھوتوں کے اس سے زیادہ واقعات سن رکھے، بے شمار لوگوں کو ذاتی تجربہ بھی ہوا۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جس پرہزار صفحات سے زیادہ ضخیم شہاب نامہ ہی کو رد کر دیاجائے۔ آپ اس باب کو نظرانداز کر کے آگے چل پڑیں۔

20: شہاب نامہ پر سب سے زیادہ تنقید اس کے آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات “پر ہوتی ہے۔ شہاب نے اس میں اپنے روحانی تجربات، احوال بیان کئے ۔ شہاب کے بقول ایک پراسرار نادیدہ سلسلہ سے اس کی روحانی رہنمائی ہوئی، شہاب نے اسے نائنٹی کا نام دیا کہ یہ بذرگ اس کی پراسرار طریقوں سے رہنمائی کرتا۔

یہ ایک ایسی بات ہے جو اگر بیان نہ کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتی کہ تصوف کے فریم ورک سے باہر کے لوگوں کے لئے ایسی چیزوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ تصوف سے مس رکھنے والے البتہ ان باتوں پر نہیں چونکتے کیونکہ اس میں اہم نکتہ یہ ذریعہ نہیں، اس کی تعلیمات ہوتی ہیں۔

21 : اس باب میں ویسے قدرت اللہ شہاب نے تصوف کی جو تعریف بیان کی ، وہ درست اور ہر قسم کے بدعات اور رسومات وغیرہ سے دور ہے۔ شہاب کرشمہ، کرامات کے بجائے شریعت کے تابع تصوف کی تلقین کرتا ہے ، اس کے بقول اصل مقصد ہی شریعت کی پابندی کرنا ہے اور تصوف صرف کیپسٹی بلڈنگ کرتا ہے۔

شہاب نے آخر میں چند دعائیں بیان کی ہیں، مگر مجموعی طور پر شہاب وظائف واوراد کی حوصلہ شکنی کرتا اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری محنت کرنے اور پھر رب سے دعا کی تلقین کرتا ہے۔ یہ آخری باب روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے بہت مفید اور معلومات افزا ہے۔ نائنٹی کے تذکرہ کو اگر نظرانداز کر کے چلیں تو پھر سب کچھ بہت ہی آسان اور قابل فہم لگتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ شہاب نے کبھی پیری مریدی نہیں کی،روحانیت کا اعلان تک نہیں کیابلکہ پوچھنے پر انکار ہی کرتے رہے۔ان کے مرنے کے بعد یہ سب کچھ شائع ہوا۔ ان کے دنیا سے جانے کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ان کا عرس ہوتا ہے نہ ہی زیادہ لوگوں کو قبر کا علم ہے۔

22: یہ ایک حقیقت ہے کہ شہاب نامہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ اس کے آخری باب سے ہزاروں لوگ روحانیت اور نیکی کی طرف مائل ہوئے ۔ شہاب نامہ ہی غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کے دور کو سمجھنے کی سب سے مستند اور عمدہ تاریخ ہے۔ شہاب کے مضامین ماں جی اور یاخدا پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی مرحومہ بیوی پر لکھا مضمون دل کو چھونے والا ہے۔

شہاب نامہ میں بہت کچھ ایسا ہے جو اس شاندار کتاب کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہاب نامہ کی یہی غیر معمولی مقبولیت اور پزیرائی ہی نے شائد حاسدین کا ایسا طبقہ پیدا کیا، جس کے دل میں شہاب کے مرنے کے چالیس سال بعد بھی ٹھنڈک نہیں پڑی۔ جب تک شہاب نامہ اور اس کا روحانیت والا باب پڑھا اور ڈسکس ہوتا رہے گا، ایک خاص طبقہ ہمیشہ شہاب کو ملامت کا نشانہ بناتا رہے گا۔

Related Posts