سینیٹ الیکشن اور نام نہاد تجزئیے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ 4 مارچ کی شام تھی۔ صبح سینیٹ کا الیکشن تھا اور ہر طرف بس ایک ہی سوال تھا۔ گیلانی اور شیخ میں سے جیت کس کی ہوگی اور ناکام کون رخصت ہوگا ؟ آنے والی صبح سے قبل اس اتری ہوئی شام اچانک ایک دور کی کوڑی سب کی توجہ کھینچ گئی۔ اینکرز کی ملکہ جذبات نے شرلی چھوڑ دی تھی کہ یہ ممکن ہی نہیں حفیظ شیخ ہار جائیں۔ ناممکن کے حق میں دلیل یہ پیش کی گئی کہ وہ تو آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کا نمائندہ ہار جائے ؟ اگر یہ نمائندہ ہار گیا تو پھر تو آئی ایم ایف 6 ارب ڈالر کا قرضہ دینے سے انکار کردے گا۔لہٰذا اسٹیبلیشمنٹ اسے ہارنے نہیں دے گی اور چونکہ اسٹیبلشمنٹ اسے ہارنے نہیں دے گی لہٰذا اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں ہوئی۔ اس شرلی میں قابل غور چیز یہ ہے کہ خود ہی ایک مفروضہ گھڑ لیا گیا اور خود ہی اس سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں ہوئی۔ ہم تھوڑا سا چونک گئے اور ذرا سا مسکرائے۔ چونکے اس لیے کہ شرلی چھوڑنے والے کا صحافت میں لگ بھگ 40برس کا تجربہ ہے اور مسکرا یوں دئیے کہ دعویٰ مضحکہ خیز حد تک کمزور تھا۔ ایسا کب ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے کسی نمائندے کو سینیٹر بنوانے کی کوشش کی ہو ؟ حفیظ شیخ کو تو وہ لازماً سینیٹر تب بنوائیں جب آئی ایم ایف سے ہونے والے قرض کے معاہدے کے ساتھ ساتھ ایک ضمنی معاہدہ ایسا بھی موجود ہو جس کی رو سے عمران خان کا دورِ حکومت ہر حال میں 5 برس تک برقرار رکھا جانا طے پا چکا ہو۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اپوزیشن اس سے بے خبر ہوتی ؟ حد یہ ہوئی کہ جب اگلا دن طلوع ہوا اور سینیٹ الیکشن کا عمل آگے بڑھنا شروع ہوا تو مختلف نیوز چینلز پر کچھ نامی گرامی اینکرز بھی اس شرلی کے زیر اثر پائے گئے۔

پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو خود کو ملک کا نمبر ون نیوز چینل، اپنے اینکرز کو نمبر ون اینکرز اور اپنے تجزیہ کاروں کو نمبر ون تجزیہ کار بتانے والے چینل پر انتخابی نتیجہ جاری ہونے سے قبل ہی ایک عجیب تماشا شروع ہوگیا۔ اس کے تین تجزیہ کاروں نے اچانک یہ تجزیہ شروع کردیا کہ یوسف رضا گیلانی تو ہار جائیں گے لہٰذا اب پی ڈی ایم کا مستقبل اور انجام کیا ہوگا؟ خاص طور پر مظہر عباس تو خاصے جذباتی بھی ہوگئے اور جھاگ اڑاتے ہوئے پیشگوئی فرمانی شروع کردی کہ نتیجے کا اعلان ہوتے ہی وزیر اعظم عمران خان ایک بہت جارحانہ قسم کی فاتحانہ تقریر فرمائیں گے۔ ساتھ ہی اپنی طرف سے اس تصور کی گئی تقریر کے لئے جواز بھی گھڑنا شروع کر دئیے۔ ‘وہ کیوں نہ کریں ایسی تقریر ؟’ ان کا یہ ابتدائی فقرہ تو اب تک کان میں گونج رہا ہے۔ اس کیوں نہ کریں کے ضمن میں انہوں نے پہلا جواز خان صاحب کو کچھ یوں مہیا کیا ‘پی ڈی ایم نے کہا تھا کہ ہم سینیٹ الیکشن نہیں لڑیں گے مگر اس بات سے پیچھے ہٹ گئی’ اور بات آگے بڑھاتے ہوئے پی ڈی ایم کے کچھ مزید ایسے اقدامات بھی گنوا دیئے جو موصوف کے مطابق پی ڈی ایم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ سابق ڈی جی، آئی ایس پی آر کے اس نکے کو سن کر لگ ہی نہ رہا تھا کہ یہ وہی مظہر عباس ہیں جو بینر اٹھا کر اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا بھی وقتاً فوقتاً ثبوت دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ابھی ان کی بھڑاس کا ایک وسیع حصہ اپنے اظہار کا منتظر ہی تھا کہ اچانک نیوز اینکر نے یہ کہہ کر بات کاٹ دی

‘ناظرین اسلام آباد سے بہت بڑی بریکنگ نیوز آرہی ہے۔ بہت بڑی خبر ہے کہ یوسف رضا گیلانی سینیٹ کا الیکشن جیت گئے ہیں۔ حفیظ شیخ ہار گئے۔’

عظیم تجزیہ کار مظہر عباس ہی نہیں بلکہ ان کے ہمنوا باقی 2 تجزیہ کاروں کے بھی رنگ اڑ گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی تجزیہ کاریاں ہیں جو ہمارے بعض نام نہاد تجزیہ کار شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر فرما رہے ہوتے ہیں؟ ہم نے تو جاری الیکشن کے دوران تجزئیے یوں ہوتے سنے اور پڑھے تھے کہ فلاں پارٹی جیتی تو یہ اثرات مرتب ہوں گے اور اگر فلاں جیت گئی تو سیاست پر یہ یہ نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ کس طرح کا تجزیہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا عملہ قومی اسمبلی میں ووٹ گن رہا ہے اور ہمارے افلاطون نتیجے کے اعلان سے قبل ہی یکطرفہ تجزئیے شروع کردیتے ہیں؟ کیا یہ سینئر تجزیہ کار سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا بنیادی فرق بھی بھول چکے؟ ایسے لوگوں کو سیاستدانوں پر رائے زنی کی اجازت بھی کیسے دی جاسکتی ہے جو انتخابی تجزئیے کے بہت بنیادی اصول بھی نظر انداز کر دیتے ہیں؟ صحافتی روایات کو پامال کرنے والے تجزیہ کار کو کیا حق ہے کہ وہ سیاستدانوں کے طرز عمل پر تبصرے کرے؟ پی ڈی ایم کی ناکامی یا کامیابی کی بات وہ کرے جو خود صحافتی اقدار پر کامیابی سے عمل پیرا ہو۔ یہ ایک پریشان کن طرز عمل ہے کہ نوکری پکی رکھنے کیلئے غیر جمہوری قوتوں کو خوش کرنے والے وہ بے سر و پا تجزئیے کیے جا رہے ہوتے ہیں جو صرف ایک منٹ بعد آنے والی بریکنگ نیوز سے ہی ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اسکرینوں اور اخبارات سے ہٹائی جا چکی۔ ایسے میں جن کی نوکریاں ابھی بچی ہوئی ہیں وہ بس اپنی نوکریاں بچانے کی جدوجہد کو ہی صحافت باور کر رہے ہیں۔ سیاست کا تجزیہ تو صحافی کی ذمہ داری ہے۔ سوال یہ ہے کہ صحافت کا تجزیہ کون کرے گا؟ اگر ہم خود نہیں کریں گے تو پھر تو وہی کریں گے جو مثبت رپورٹنگ کی تلقین کرتے ہیں اور وہ صرف تجزئیے تو نہیں کرتے، ایکشن بھی کرتے ہیں۔کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟

Related Posts