اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں  شرح سود میں 1 فیصد یعنی 100 بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح ملک میں شرح سود 8 اعشاریہ 75 سے بڑھ کر 9 اعشاریہ 75 فیصد ہوگئی ہے۔مرکزی بینک کے مطابق فیصلے کا مقصد مہنگائی کو قابو کرنا اور نمو کو پائیدار بنانا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا ماننا ہےکہ گزشتہ دورانیہ میں معاشی سرگرمیاں تیز رہیں، البتہ مہنگائی اور تجارتی خسارہ بڑھا ہے، تجارتی خسارہ بڑھنے کا سبب عالمی سطح پر اجناس کی بلند قیمتیں اور مقامی معاشی نمو ہے۔نومبر میں ہیڈ لائن صارف مہنگائی کی شرح 11اعشاریہ 50 فیصد اورتجارتی خسارہ 5 ارب ڈالر سے زائد رہا۔

پاکستان دنیا کی 26ویں سب سے بڑی معیشت ہے جسے بلحاظ مساوی قوت خرید اور بلحاظ خام ملکی پیداوار 42ویں سب سے بڑی معیشت قرار دیا جاتا ہے تاہم یہاں شرح سود کا ذکر آیا ہے تو اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شرح سود کیا ہے اور عام آدمی پر اس کے کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔

شرح سود سے مراد قرض کی رقم کا کرایہ ہے جو قرض لینے والا ایک مقررہ مدت کے بعد قرض دینے والے کو بطور سود ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

اسے عام طور پر فیصد میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر شرح سود 10 فیصد سالانہ ہے تو قرض لینے والے کو ہر سو روپے کے قرض پر ایک سال بعد 10 روپیہ قرض دینے والے کو سود ادا کرنا پڑے گا۔

اس کے بعد اگر قرض لینے والا اصل رقم بھی واپس ادا کر سکے تو قرض کا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ مزید سود ادا کرنے سے آزاد ہو جاتا ہے۔

جب بھی کسی ملک میں بینکوں کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں پر شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔ چونکہ اس سے معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اس لیے کوئی بھی ملک شرح سود میں اضافہ کرنا پسند نہیں کرتا۔

شرح سود میں اضافے سے قرض کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اس لئے قرض لینے کا رجحان کم ہو جاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ نئی سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے اور مقابلے کی فضا کم ہو جاتی ہے جس سے قیمتیں بڑھنے کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ قسطوں پر مکان یا گاڑی خریدنے کا رجحان کم ہو جاتا ہے کیونکہ اب ہر قسط پہلے سے زیادہ مہنگی ہو جاتی ہے۔

شرح سود میں اضافے سے ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ جاتی ہےکیونکہ بینک میں رقم رکھنے پر زیادہ منافع ہوتا ہے جس کی وجہ سے بازاروں میں مال کی فروخت کم ہو جاتی ہے تاہم حکومت کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ملکی کرنسی کی قدربڑھ جاتی ہے کیونکہ دیگر ممالک کے لوگ اپنی بچت اب بلند شرح سود والے ملک میں منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

جب بچت اور بینک ڈپازٹ بڑھتے ہیں تو زیر گردش نوٹوں کی مقدار میں کمی آتی ہے جس سے افراط زر کم ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امیروں کو اپنی بچت پر زیادہ سود ملتا ہے اس لیے امیر اور امیر ہو جاتا ہے جبکہ غریب پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 16 اپریل 2020 کو کورونا کے منفی اثرات کی وجہ سے شرح سود میں 2 فیصد کمی کرکے 9 فیصداورایک ماہ بعد 15مئی کو شرح سود مزید کم کر کے 8 فیصد تک کردی تھی۔

25 جون 2020 کو دباؤ کا شکار معیشت کو سہارا دینے کے لیے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کرتے ہوئے پالیسی ریٹ 7 فیصد کردیا تھا۔

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کاکہنا ہے کہ رواں مالی سال معاشی نمو5فیصد تک ہونے کی توقعہے، سوا 13فیصد شرح سود والی صورتحال نہیں دیکھ رہا، پچھلی بار جب شرح سود 13فیصد کی گئی تو وہ وقت بحران کا تھا۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ روپے کی قدر بحال کرنے کے ساتھ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے آگے آئے اور ایک واضح معاشی پالیسی تشکیل دی جائے۔

Related Posts