سیلاب متاثرین کا آنکھوں دیکھا حال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے ایک ماہ سے سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، جس نے تقریباً پاکستان کے 75فیصد حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، قدرتی آفات اور اللہ کا عذاب حکومتی انتظامیہ کی نا اہلی اور غفلت کا راز کھول دیتا ہے، جہاں ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں سیلاب سے سب سے زیادہ بلوچستان اور سندھ تباہی کا شکار ہوئے اور تاحال تباہی کا منظر نامہ پیش کررہے ہیں۔

دو ہفتوں سے میرا سندھ جانے کا اتفاق ہورہا ہے، جب وہاں کے شہر جھڈو میں لوگوں کے حالات دیکھے تو دل خون کے آنسو رویا، میں تو سمجھ رہا تھا کہ سیلاب متاثرین ہی اس صورتحال سے پریشان ہوں گے لیکن وہاں میں نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو مجموعی طور پر سندھ حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔ جھڈو کا ایک چھوٹا سا گاؤں گوٹھ سائیں دا الیان جس میں تقریباً 4سو سے 5سو گھر ہوں گے، مکمل طور پر تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔

وہاں کے ایک رہائشی سے جب اس حوالے سے پوچھا کہ یہ کیا پہلی بار ہوا ہے کہ بارش اور سیلاب کا پانی آیا ہے، تو انہوں نے میرے سوال کرنے پر بتایا کہ نہیں جی اس سے پہلے بھی یہ گاؤں 2سے 3بار ڈوب چکا ہے، لیکن اس بار معاملات بہت سنگین ہیں، اس کی اس بات سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت اس حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے، کیونکہ جو گاؤں پہلے 2سے 3بار ڈوب چکا ہو، چوتھی بار اُس کا ڈوبنا سوائے سوالیہ نشان کے کچھ نہیں ہے؟

300سے 400خاندانوں کے گھر پورے ڈوب گئے ہیں تو ان کو رہنے کے لئے کچھ جگہ بھی درکار ہوگی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ کس طرح سے سڑک پر خیمے لگاکر رہ رہے ہیں، جو سڑک پر رہ رہے ہیں اُن کا تو حال اللہ ہی جانتا ہے، جب وہاں کے لوگوں سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس سندھ حکومت یا کسی این جی اوز کی جانب سے کوئی امداد پہنچ رہی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات ہے 15دن پہلے کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا ٹرک ہے کھانے کا جوکہ یوتھ یونٹی ویلفیئر آرگنائزیشن ہمارے لئے کچھ کھانے پینے کا سامان لے کر آئی ہے، اُس وقت لوگوں کی حالت زار ناقابل دید تھی، کیونکہ کچھ سیلاب متاثرین اُن میں ایسے تھے جو سفید پوش تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا، جو دینے والے تھے، اب لینے پر مجبور ہوچکے تھے۔ ایک ہفتے کے بعد جب دوبارہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو اس بار ہم یوتھ یونیٹی آرگنائزیشن کا میڈیکل کیمپ لگانے وہاں گئے تھے۔

کیونکہ لوگ زندہ ہوں گے تو کھانا کھائیں گے اور جہاں لوگ دربدر ہوجاتے ہیں اور کھڑے ہوئے پانی کے بیچ میں رہ رہے ہیں تو وہاں وبائیں پھوٹنے کا زیادہ خدشہ رہتا ہے، اس بار وہاں کا منظر نامہ کچھ الگ تھا، کافی تعداد میں این جی اوز انہیں کھانا تو فراہم کررہی ہیں مگر ان لوگوں کی صحت کے حوالے سے کوئی انتظام نہیں ہے، اب پھر سندھ حکومت بیچ میں آتی ہے جو کھانا تو دے نہیں پارہی تو اُن کی ادویات کا کیا خیال رکھے گی۔

یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ سندھ حکومت کے بارے میں ہم لوگوں سے سنتے تھے کہ کرپٹ ہیں، صرف اپنے لوگوں کو نوازا جاتا ہے، وہاں لوگوں کی زبانی یہ سب کچھ سنا بھی، ایک شخص نے بتایا کہ ڈی سی (ڈپٹی کمشنر صاحب) اُن لوگوں کو ٹینٹ یا کھانا فراہم ہیں جو ایم این اے یا ایم پی اے کی جانب سے پرچی پر کچھ لکھواکر لایا ہو، حتیٰ کے اچھا کھانا بھی اُنہی لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے، اب اگر صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو لوگ جس حال میں وہاں رہ رہے ہیں، اُن کا اللہ ہی نگہبان ہے۔

میڈیکل کیمپ کے بعد ایک ڈاکٹر سے بات چیت کی تو اُنہوں نے بتایا کہ خواتین کی حالت تو یہ ہے کہ اُن کو خود نہیں پتہ انہیں کیا بیماری ہے؟ بس انہیں یہ پتہ ہے کہ ہم کمزور ہوگئے ہیں، کئی حاملہ خواتین کے بچے اُن کے پیٹ میں ضائع ہوچکے ہیں، لیکن وہ سمجھ رہی ہیں کہ ابھی بچے کی آمد کا وقت نہیں ہے، ڈاکٹر نے آبدیدہ ہوکر ایک جملہ کہا کہ کچھ مریض ایسے ہیں کہ اُن کا ہمیں خود نہیں پتہ کہ وہ صبح تک زندہ سلامت رہیں گے یا نہیں، اور دوسری جگہ انہوں نے دیگر آرگنائزیشن اور سندھ حکومت سے درخواست کی کہ خدارا ان کے لئے میڈیکل کی مستقل طور پر سہولت فراہم کی جائے۔

یہ سب چیزیں دیکھ کر ایک ہی چیز ذہن میں آئی کہ سندھ حکومت کے پاس باہر سے جو امداد آرہی ہے، وہ اصل میں جا کہاں رہی ہے؟ کیونکہ وہاں پر آنکھوں دیکھی تو کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں نظر آئی ہو کہ سندھ حکومت نے فراہم کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت سیلاب متاثرین کے لئے عملی طور پر کیا اقدامات کرتی ہے۔

Related Posts