قائدِ اعظم کا پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رواں برس 14 اگست کو پاکستانیوں نے من حیث القوم ڈائمنڈ جوبلی یعنی برطانوی سامراج سے اپنے وطن کی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائی اور آج 25 دسمبر کو ہم بانئ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

بابائے قوم کی سالگرہ اس لحاظ سے اچھا موقع ہے کہ ہم اپنا احتساب خود کریں اور دیکھیں کہ کیا ہم نے عظیم قائد کے ویژن کی تکمیل کیلئے پاکستان کے ساتھ انصاف کیا؟ تاہم گزشتہ 75سال میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ اس کا جائزہ لینے کا وقت نہیں ہے۔ راقم الحروف پاکستان کیلئے قائد اعظم کے ویژن کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہتا ہے۔

ہم سب کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ قائد اعظم ایک وکیل ہونے کے ناطے قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے نظریات برابری، انصاف اور سب کیلئے منصفانہ حقوق پر قائم تھے تاہم ہم پاکستان میں ان اصولوں سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ہمارے ادارے مختلف وجوہات کے باعث قانون کی حکمرانی کا نفاذ عمل میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔

حکمراں اشرافیہ اور امیر طبقے قانون سے بالاتر بن بیٹھے ہیں جبکہ باقی معاشرے کو غیر مساوی انصاف بلکہ ظلم کا سامنا ہے جو اسلام اور مغرب دونوں کے اصولوں کے خلاف ہے جبکہ قائد اعظم جمہوریت اور آئین پر بھی پختہ یقین رکھتے تھے۔ پاکستان کا تصور یہ تھا کہ یہ ایک ایسی مملکت ہوگی جو مساوات، بھائی چارے اور سماجی انصاف کے اصولوں کی پاسداری کرے گی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے 14 فروری 1948 کو خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ میرے ذہن میں ایک بنیادی اصول ہے جو مسلم جمہوریت کا اصول ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں مضمر ہے جو ہمارے عظیم قانون دینے والے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمارے وضع کیے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممالک کے معاملات میں فیصلہ بات چیت اور مشاورت سے کیا جانا چاہئے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں ہماری جمہوریت کی حالت بابائے قوم کے بیان کردہ درج بالا اصولوں سے بہت دور ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک ہم سب نے مختلف فوجی مداخلتوں، سویلین یا فوجی حکمرانوں سے قطع نظر ناقص گورننس، اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
جمہوریت اور آئین پرستی کے ساتھ ساتھ  قائدِ اعظم محمد علی جناح مسلح افواج اور سول بیوروکریسی کی سویلین بالادستی کے حامی تھے۔ 14 اگست 1947 کو سرکاری ملازمین سے خطاب میں قائد اعظم نے مسلح افواج پر سویلین بالادستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ مت بھولیں کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں اور آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم عام شہری ہیں جو ان مسائل کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کاموں کو انجام دیں جو آپ کو سونپے گئے ہیں۔” ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اصول بھی گزشتہ 75 سالوں میں حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
بیوروکریسی پر سویلین بالادستی کے بارے میں قائد اعظم کا خیال تھا کہ سول سروس کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور اس وقت کی حکومت اور بالآخر پاکستان کے شہریوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ 25 مارچ 1948 کو چٹاگانگ میں گزیٹیڈ افسران سے خطاب میں قائداعظم  نے کہا  کہ آپ کو بطور خادم اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں ہے جو آپ کے کام سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ اپنا مقدمہ موجودہ آئین یا مستقبل کے آئین کے تحت لڑیں جو بالآخر تشکیل دیا جائے، اس لیے آپ کا اس پارٹی یا اس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ سرکاری ملازم ہیں۔ جس کو بھی اکثریت ملے گی وہی حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض ہے کہ آپ اس حکومت کی خدمت وقتی طور پر خدمت گار بن کر کریں نہ کہ سیاستدانوں کی طرح۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ عوام کے سچے خادم بن کر کام کریں خواہ کسی وزیر یا وزارت کی کوشش کی جائے۔ سرکاری ملازمین کی حیثیت سے آپ کے فرائض کی انجام دہی میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ افسوس کہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک ہر سطح پر ہماری بیوروکریسی کو سیاست زدہ کر دیا گیا ہے۔ بیوروکریسی کی سیاست نے اس ملک میں گورننس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
مزید برآں ہم جانتے ہیں کہ قائد اعظم بدعنوانی کے خلاف تھے اور انہوں نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے صدارتی خطاب میں ہمیں اس بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سب سے بڑی لعنتوں میں سے ایک جس سے بھارت دوچار ہے۔ اس سے آزاد، لیکن میرے خیال میں ہماری حالت بہت زیادہ خراب ہے – رشوت اور بدعنوانی واقعی ایک زہر ہے۔ ہمیں اسے آہنی ہاتھ سے دبانا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس اسمبلی کے لیے جلد از جلد مناسب اقدامات کریں گے۔ اسی خطاب میں بابائے قوم نے بلیک مارکیٹنگ، اقربا پروری اور نوکریوں جیسے دیگر بدعنوان طریقوں کا تذکرہ کیا اور قوم کو خبردار کیا کہ وہ ہر لحاظ سے ان سے دور رہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے کرپشن کے بارے میں قائدِ اعظم کے انتباہ کو نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ بدعنوانی ایک ایسی لعنت ہے جس سے لڑنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قائد کا پاکستان بھی ایک فلاحی ریاست ہے۔ یکم مارچ 1946 کو کلکتہ میں مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے  قائد اعظم نے معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں سے اپنی وابستگی بیان کی اور فرمایا کہ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں، خدا نے مجھے اس عمر میں آرام سے زندگی گزارنے کے لیے کافی کچھ دیا ہے۔ میں اپنا خون پسینہ پانی کی طرح کیوں بہاؤں گا؟ کیوں بھاگوں گا اور اتنی مصیبتیں اٹھاؤں گا؟ یہ سب میں سرمایہ داروں کے لیے نہیں، بلکہ آپ کے لیے، غریب عوام کے لیے کروں گا۔ 1936 میں میں نے لوگوں کی غربت دیکھی ہے۔ ان میں سے بعض کو دن میں ایک بار بھی کھانا نہیں ملتا تھا۔ میں نے ان کو حال ہی میں نہیں دیکھا، لیکن میرا دل ان کے لیے تڑپتا ہے۔ میں اسے محسوس کرتا ہوں اور پاکستان میں ہم اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ہر ایک کو باوقار زندگی مل سکے۔
آزادی سے چند دن پہلے 9 اگست 1947 کو کراچی کلب میں قائد اعظم نے غریبوں کی مدد کے بارے میں اپنے مؤقف کی توثیق کی اور فرمایا کہ غریبوں کی دیکھ بھال اور ان کی مدد کرنا ہمارا مقدس فرض ہے۔ اگر میں نے ان کے تئیں اپنے مقدس فرض کو محسوس نہ کیا ہوتا تو میں پچھلے 10 سالوں کی مشقت اور تکلیف سے کبھی نہ گزرتا۔ ہمیں انہیں زندگی کے بہتر حالات کے ساتھ محفوظ کرنا چاہیے۔ امیر کو امیر بنانا ہماری پالیسی نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم چیزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ ہم مستقل طور پر ان کا تمام واجب الادا حصہ دے سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا قائد کے پاکستان کی خصوصیات کی فہرست مکمل نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی اداروں اور طرز حکمرانی کی اصلاح پر بحث کا نقطہ آغاز ہے۔ ہمیں  قائدِ اعظم کے پاکستان کی بصیرت کی روشنی میں ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان سماجی معاہدے پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایسی ریاستی مشینری کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا جو مسلسل خستہ حال اور بدعنوان ہو۔

Related Posts