صحافیوں کا تحفظ

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

2020 میں پریس کی آزادی اور معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو محدود کرنے کے اقدامات کی نوعیت کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا کو مواد اور کوریج کے لحاظ سے بھی مختلف انوکھے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

سال 2020 میں میڈیا کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی کوریج پر مجبور ہونا پڑا جبکہ میڈیا کارکنوں  کو وباء سے بچاؤ کیلئے کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دی گئی،اس سال میں ملک میں معلومات کے آزادانہ بہاؤکو محدود کرنے کے لئے سنسر شپ کی مزید مخالف شکلیں بھی عمل میں آئیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مواد کو قانونی حیثیت دینے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے کارکنوں اور شہریوں کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹوں پر مقدمات کااندراج بھی کیا گیایہاں تک کہ خواتین صحافیوں کو بھی آن لائن دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا جو پریس کی آزادی پر حملوں کا بین ثبوت ہے۔

سال 2020میں کورونا کے پھیلاؤ نے ملک میں میڈیا کے متعددکارکنوں کی زندگیاں چھین لیں اور لاتعداد کارکنوں کو متاثر کیااور نیوز روم کو سنگین خطرات سے دوچار کیا ،ملک بھر میں کورونا مراکز کی کوریج کے دوران صحافیوں کے متاثر ہونے کے متعدد واقعات سامنے آئے۔

گزشتہ سال کورونا کیخلاف جنگ کے باوجود دیگر محاذوں پر بھی میڈیا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورپاکستانی میڈیا کو درپیش چیلنجوں اور پریس کی آزادی پر پابندیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پریس کی آزادی کو مسلسل خطرہ لاحق رہا ،میڈیا تنظیموں کو بڑھتی ہوئی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا اور صحافیوں کو اغواء  اور قتل بھی کیا گیا۔

ایک سال کے دوران میڈیا کے حوالے سے سب سے ہائی پروفائل کیس قومی احتساب بیورو کے ذریعہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری تھا۔ بعد ازاں انہیں نومبر 2020 میں سات ماہ سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رکھنے بعد ضمانت پر رہائی مل گئی۔

جولائی میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا جبکہ سینئر رپورٹر علی عمران سید اکتوبر میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور صحافیوں بلال فاروقی اور اسد علی کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہوئے۔

گزشتہ سال میڈیا میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ،صحافیوں کے لاپتہ ہونے کے کم از کم دو واقعات کی اطلاع ملی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کے کاروباری اثاثوں سے متعلق کہانی کے بعد صحافی احمد نورانی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک پبلشنگ ہاؤس کے ساتھ ساتھ کراچی پریس کلب پر بھی چھاپہ مارا جس سے خوف کا احساس پیدا ہوا۔

سال 2020 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواد کی مانیٹرنگ میں اضافہ دیکھا گیا اورپاکستان میں میڈیا ہر محاذ پرمشکلات کا شکار رہا،فی الحال پاکستان میں میڈیا شدید خطرات کی زد میں ہے اور بدترین مالی امور کا بھی سامنا ہے۔

بحیثیت صحافی ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں پریس کی آزادی کو یقینی بناتے ہوئے صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کی جانوں کے تحفظ کے لئے فوری اور مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔

Related Posts