ترکیہ میں کردوں کی 40 سالہ بغاوت کا خاتمہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترکیہ کے ذرائع ابلاغ نے آج (پیر،12مئی2025) کو خبر دی ہے کہ کردوں کی باغی جماعت حزب العمال کردستانی (پی کے کے) نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنے اور ترکیہ میں مسلح جدوجہد کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے ساتھ ہی اس چالیس سالہ طویل خونریز بغاوت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ “پی کے کے” کی 12ویں کانفرنس کے اختتام پر کیا گیا، جیسا کہ فرات نیوز ایجنسی (جو پارٹی کے قریب سمجھی جاتی ہے) نے رپورٹ کیا۔ رپورٹ کے مطابق پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ اپنا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر رہی ہے، مسلح جدوجہد اور پارٹی کے نام پر تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے، وہ اپنی تاریخی ذمہ داری پوری کر چکی ہے”۔
فکری تبدیلی:
فرات نیوز نے مزید کہا کہPKKاب یہ سمجھتی ہے کہ کرد سیاسی جماعتیں اب ذمہ داری سنبھالیں گی تاکہ کرد جمہوریت کو فروغ دیا جا سکے۔ اب ترکی-کرد تعلقات کی ازسرِنو تشکیل کی ضرورت ہے۔
پس منظر:
پی کے کے کی بنیاد1978میں رکھی گئی تھی اور اس نے1984سے ترکیہ میں ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ اسے ترکیہ، امریکہ اور یورپی یونین دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس جدوجہد کے دوران40ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اعلان ترکیہ، کردوں اور خطے کے لیے ایک ممکنہ امن کی راہ ہموار کرنے والا تاریخی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ ترکیہ کی حکمران جماعت حزب العدالة والتنمية کے ترجمان عمر جلیک نےPKKکی تحلیل اور ہتھیار ڈالنے کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “اگر حزب العمال کردستانی اپنے آپ کو مکمل طور پر تحلیل کرتی ہے، ہتھیار ڈال دیتی ہے اور اپنی تمام شاخوں، توسیعات اور غیر قانونی ڈھانچوں کو ختم کرتی ہے، تو یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہوگا۔”
عمر جلیک نے اس اقدام کو ترکیہ کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست زمین پر پارٹی کے حل کے عمل پر گہری نظر رکھے گی اور صدر رجب طیب اردوغان کو اس عمل کے تمام مراحل سے آگاہ کیا جائے گا۔
“پی کے کے” کی یہ تاریخی کانفرنس 5 سے7مئی کے درمیان شمالی عراق میں منعقد ہوئی، جو عبد اللہ اوجلان (پارٹی کے بانی اور26سال سے ترکیہ میں قید) کی دعوت پر بلائی گئی تھی۔ فرات نیوز ایجنسی کے مطابق، اوجلان نے27 فروری کو ایک پیغام میں”پی کے کے” کو ہتھیار ڈالنے اور خود کو تحلیل کرنے کی دعوت دی تھی۔ پارٹی نے یکم مارچ کو اوجلان کی اپیل پر مثبت ردعمل دیا اور40سالہ مسلح جدوجہد کو ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ کانفرنس میں ہونے والے اس فیصلے کا اعلان 12 مئی پیر کے روز کیا گیا۔ پارٹی نے کہا کہ وہ فوری فائر بندی (Ceasefire) کا اعلان کرتی ہے۔ اس پیش رفت کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اور پورے خطے میں سیاسی اور سیکورٹی منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ ترکیہ کے نئے مرکز برائے تحقیق کے محقق علی اسمر نے کہا ہے کہ حزب العمال کردستانی کی جانب سے ہتھیار چھوڑنے کا اعلان ترکیہ کی سیاست میں تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو صرف اندرونی نہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اثر ڈالے گا۔ علی اسمر نے الجزیرہ نیٹ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ “یہ قدم صرف ہتھیار ڈالنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔” انہوں نے یاد دلایا کہ ترک وزیر خارجہ، ہاکان فیدان پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ “صرف مسلح سرگرمیوں کا خاتمہ کافی نہیں، بلکہ”پی کے کے” کی وہ خفیہ انٹیلی جنس اور تجارتی ڈھانچے بھی ختم کیے جائیں جو1970کی دہائی سے مختلف ممالک میں مختلف پردوں کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔”
خفیہ نیٹ ورکس کا خطرہ:
علی اسمر نے خبردار کیا کہPKKکے یہ خفیہ نیٹ ورکس، اس کے مسلح ونگ سے کم خطرناک نہیں اور اگر انہیں ختم نہ کیا گیا تو دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق، یہ مرحلہ اب ترک ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک خصوصاً شام اور عراق پر بھی بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے تاکہ اس عمل کو کامیاب بنایا جا سکے۔ علی اسمر نے انکشاف کیا کہ ترکیہ، عراق اور شام میں ہتھیار جمع کروانے کے مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اس عمل کے لیے اعلیٰ سطح کے انٹیلی جنس تعاون کی ضرورت ہوگی، کیونکہPKKکا معاملہ بہت پیچیدہ اور خطے میں گہری جڑیں رکھنے والا ہے۔ یہ ایک ایسا موڑ ہے جو اگر صحیح طریقے سے سنبھالا گیا تو نہ صرف ترکیہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں استحکام اور امن کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔ محقق نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ بعض ذرائع کے مطابق ایک خفیہ منصوبہ زیر غور ہے، جس کے تحت PKKکے ارکان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ جن ارکان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوں گے (یعنی جنہوں نے قتل یا دیگر سنگین جرائم کیے ہوں)، ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جبکہ وہ ارکان جنہوں نے کوئی سنگین خلاف ورزی نہیں کی، انہیں سماجی انضمام(rehabilitation) کے پروگراموں کے ذریعے معاشرے اور قومی دھارے میں واپس لایا جائے گا۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو غالباً یورپی ممالک میں جلاوطن کیا جائے گا۔ محقق کے مطابق، اگر یہ قیادت ترکیہ، عراق یا شام جیسے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں رہی، تو یہ مستقبل میں بحرانوں کی واپسی کا خطرہ برقرار رکھے گی۔ خاص طور پر جب کہ ایران کا مؤقف ان تبدیلیوں کے حوالے سے غیر واضح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکیہ میں احتیاط بھرا امید کا ماحول پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے امن کی طرف مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ لیکن اپوزیشن کی بعض جماعتیں اس اقدام کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہیں، کیونکہ اگر یہ عمل کامیاب ہوا تو اس کا کریڈٹ حکمران جماعت “آق پارٹی” (حزب العدالة والتنمية) کو جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برسوں میںPKKسے بغاوت کے خاتمے کے لیے کئی بار بات چیت کی کوششیں ہوئیں، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ یہ موجودہ پیش رفت اگرچہ حوصلہ افزا ہے، مگر اس میں کئی چیلنجز، حساس پہلو اور سیاسی پیچیدگیاں بھی شامل ہیں۔
آئیے اس اہم پیش رفت کے ترکیہ کی داخلی سیاست اور یورپی ردِعمل پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں:
ترکیہ کی داخلی سیاست پر اثرات:
حکمران جماعت (آق پارٹی – حزب العدالة والتنمية):
اگرPKKکا ہتھیار ڈالنے اور تنظیمی تحلیل کا عمل کامیاب ہوتا ہے، تو یہ صدر رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت کے لیے ایک بڑی سیاسی فتح ہوگی۔ اردوان اسے امن، استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کی علامت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، جو اگلے انتخابات میں ان کے حق میں عوامی رائے کو موڑ سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل:
بعض ترک قوم پرست یا سیکولر جماعتیں اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، خاص طور پر کیا واقعیPKKاپنی خفیہ سرگرمیوں سے باز آئے گی؟ کیا حکومت کردوں کو سیاسی رعایتیں دے رہی ہے؟ بعض مخالفین اسے اردوان کی سیاسی چال سمجھتے ہیں، جس کا مقصد انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے، نہ کہ حقیقی امن۔
کرد آبادی کا ردعمل:
ترکیہ کے کرد عوام اس عمل کو امید اور تشویش کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر انہیں مساوی حقوق، زبان و ثقافت کی آزادی اور سیاسی نمائندگی دی جاتی ہے، تو وہ اس عمل کی حمایت کریں گے۔ بصورتِ دیگر، مایوسی ایک نئے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
یورپی یونین اور مغربی ردِعمل:
یورپی یونین ماضی میںPKKکو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے، مگر اس کی قیادت بعض یورپی ممالک میں پناہ لے رکھی ہے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ابPKKکی اعلیٰ قیادت کو یورپ جلاوطن کیا جاتا ہے، تو یورپی یونین کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا انہیں سیاسی پناہ دی جائے گی؟ یا ان پر نظر رکھ کر ان کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے گا؟ امریکا شاید ترکیہ کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دے، خاص طور پر چونکہPKKنیٹو اتحادی کے خلاف کام کر رہی تھی۔ تاہم، کرد ملیشیاؤں جیسےYPG (جو شام میں امریکا کا اتحادی رہی ہے) کے ساتھ امریکا کے تعلقات، اس مسئلے کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
خطے میں ایران کا ممکنہ مؤقف:
ایران اب تک خاموشی ہے اور اس کی خاموشی اس وقت اہم ہے، کیونکہ اس کے اپنے کرد علاقے ہیں، جہاں شورش کا خطرہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اگر ترکیہ، شام اور عراق مل کر کرد تحریکوں کو دبانے لگے، تو ایران پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنا مؤقف واضح کرے۔ خلاصہ یہ کہPKKکے ہتھیار ڈالنے کا اعلان ایک تاریخی موڑ ضرور ہے، لیکن اس کا پائیدار امن میں بدلنا اس بات پر منحصر ہے کہ ترک حکومت، اپوزیشن، کرد عوام اور علاقائی قوتیں کس حد تک اعتماد، شفافیت اور ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔
تاریخی پس منظر:
آئیے اب کرد مسئلے کی تاریخی جڑوں اور حزب العمال کردستانی کی تنظیمی ساخت پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں تاکہ اس تنازعے کی گہرائی سمجھنے میں مدد مل سکے۔
کرد مسئلے کی تاریخی جڑیں:
کرد مشرقِ وسطیٰ کی ایک بڑی قوم ہے، جن کی آبادی ترکیہ، ایران، عراق اور شام میں تقسیم ہے۔ ان کی کوئی آزاد ریاست نہیں اور وہ صدیوں سے اپنی ثقافتی، لسانی اور سیاسی شناخت کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ معاہدہ سیور (Treaty of Sèvres – 1920) میں کردوں کے لیے ایک ممکنہ ریاست کی بات ہوئی تھی، مگر معاہدہ لوزان (1923) نے اسے رد کر دیا اور جدید ترکیہ کی سرحدیں طے ہو گئیں۔ ترکیہ نے کرد شناخت کو دبایا، کرد زبان، نام اور ثقافت پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ اس کے ردعمل میں کردوں نے کئی بار مختلف تحاریک اٹھائیں، جنہیں ریاست نے طاقت سے کچل دیا۔ یہی محرومی آگے چل کر PKKجیسی مسلح تحریکوں کا سبب بنی۔
پی پی کے کی تنظیمی ساخت:
1978 میں عبداللہ اوجلان کی قیادت میںPKKکی بنیاد رکھی گئی۔ آغاز میں یہ مارکسی-لیننسٹ نظریات پر مبنی تنظیم تھی، جس کا مقصد آزاد کرد ریاست کا قیام تھا۔1984سےPKKنے ترکیہ میں مسلح کارروائیاں شروع کیں۔ اس کی کارروائیاں ترک فوج، پولیس اور بعض اوقات عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتی تھیں۔ اس تنظیم کے کارندے ایسے خوفناک حملے کرتے تھے کہ خطے کی کسی باغی تحریک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ یہ پورے کے پورے علاقوں کو دھماکوں سے اڑاتے تھے۔ جس کے نتیجے میں ترکیہ، امریکا اور یورپی یونین نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔
اس تنظیم کی کچھ ذیلی شاخیں بھی ہیں۔ مثلاً سیاسی معاملات کردستان کمیونٹیز یونین(KCK)اور عسکری کارروائیاں پیپلز ڈیفنس فورسز(HPG)کے ذمہ ہیں۔ جبکہ خواتین کا الگ شعبہ ہے، جوYJA-STARکہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ خارجہ امور اور مالیات کے لیے الگ کمیٹیاں قائم ہیں۔ بیرونی شاخ کے یورپ میں تنظیمی دفاتر، خاص طور پر جرمنی، سوئٹزر لینڈ اور سویڈن میں سرگرم ہیں۔ جبکہ فنڈنگ کے لیے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں: چندے، اسمگلنگ اور بعض ممالک میں غیر قانونی سرگرمیاں۔PKKنے عراق، شام اور جزوی طور پر ایران میں بھی نیٹ ورک قائم کیا۔ شام میں YPG(جسے امریکا نے داعش کے خلاف اتحادی کے طور پر استعمال کیا) کوPKKکا ذیلی گروہ سمجھا جاتا ہے۔ ایران میںPJAKنامی کرد تنظیم،PKKسے نظریاتی طور پر جڑی ہوئی ہے۔
“پی کے کے” کی بنیاد ایک تاریخی مظلومیت اور ریاستی جبر کے خلاف ردعمل میں رکھی گئی، لیکن اس کی مسلح جدوجہد نے ترکیہ اور خطے میں، دہشت گردی، بداعتمادی، تشدد اور تقسیم کو بڑھایا۔ اب جب کہPKKہتھیار ڈالنے اور تنظیم تحلیل کرنے پر آمادہ ہوئی ہے تو یہ سوچنے کا وقت ہے کہ کیا سیاسی حقوق، ثقافتی آزادی اور جمہوری شرکت کے ذریعے کرد مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا خطے کے ممالک مل کر ایک پرامن سیاسی حل کی طرف بڑھنے کو تیار ہیں؟
کردوں کی ثقافت:
ترکیہ میں موجود کردوں کی ثقافت، زبان اور سیاسی جماعتوں کا تعارف ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہPKKکے بعد کرد عوام کی نمائندگی کون کرے گا اور ان کی شناخت کس حد تک تسلیم کی جاتی ہے۔
کرد ثقافت اور زبان:
کردوں کی بنیادی زبان کُردی(Kurdi)ہے، جس کے کئی لہجے(dialects)ہیں، کرمانجی ترکیہ اور شام میں عام ہے۔ صورانی عراق اور ایران میں زیادہ بولا جاتا ہے۔ جبکہ زازا ترکیہ کے کچھ مشرقی علاقوں میں عام ہے۔ تاہم ترکیہ میں عرصے تک کُردی زبان پر سخت پابندیاں عائد رہیں، یہاں تک کہ سرکاری سطح پر صرف ترک زبان کی اجازت تھی۔ کرد زبان میں بولنا، تعلیم یا اشاعت کرنا ممنوع تھا۔2000 کی دہائی میں اردوان حکومت کی جانب سے کچھ اصلاحات کی گئیں۔ نجی چینلز پر کُردی نشریات کی اجازت ملی۔ تعلیمی اداروں میں محدود کرد زبان کے کورسز شروع ہوگئے۔
کرد ثقافت میں رقص، موسیقی، لوک گیت، اور شاعری کا اہم کردار ہے۔ نیوروز(Nowruz)، یعنی بہار کا تہوار، کردوں کے لیے ثقافتی اور سیاسی علامت بن چکا ہے۔ کردوں کا اپنا خاص لباس ہے، عام طور پر روایتی کرد یہ لباس، پہنتے ہیں۔
ترکیہ میں کرد سیاسی جماعتیں:
“پی کے کے” کے برعکس، ترکیہ میں کئی کرد سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو جمہوری طریقوں سے کرد عوام کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ ان میں سے چند اہم جماعتیں درج ذیل ہیں:HDP (Peoples’ Democratic Party یعنی حزب الشعوب الديمقراطية سب سے نمایاں کرد نواز جماعت ہے۔ یہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کر چکی ہے۔ اسے صرف کرد نہیں، بلکہ دیگر اقلیتوں، سیکولر افراد اور بائیں بازو کے طبقات کی بھی حمایت حاصل ہے۔ حکومت نےHDPپر اکثرPKKسے روابط کا الزام لگایا ہے اور اس کے کئی رہنما زیرِ حراست ہیں۔ اسی طرح دوسری جماعت DBP (Democratic Regions Party – یعنی حزب المناطق الديمقراطية ہے)۔ یہ جماعتHDPکی مقامی سطح پر اتحادی ہے۔ بلدیاتی حکومتوں میں فعال ہے، خاص طور پر مشرقی ترکیہ میں۔
حکومتی پالیسی:
ان جماعتوں کو اکثر ریاستی دباؤ، عدالتی کاروائیوں اور بلدیاتی مداخلت کا سامنا رہتا ہے۔ ترکیہ میں عدالتیں کئی بارHDPکے میئرز کو معطل یا برطرف کر کے وہاں سرکاری ٹرسٹیاں بٹھا چکی ہیں۔
مستقبل کی سمت؟
اب اگرPKKواقعی ختم ہو جاتی ہے، تو جمہوری طریقے سے کام کرنے والی کرد جماعتوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست انہیں “دہشت گردی سے ہٹ کر سیاسی فریق” کے طور پر قبول کرے۔ کرد عوام کو مکمل شہری حقوق، زبان کی آزادی اور مقامی خود اختیاری دی جائے۔ اردوان حکومت یہ کام بڑی حد تک کرچکی ہے۔ اب اعتماد سازی کے لیے ریاست کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ کم ازکم ترکیہ کی حد تک کرد مسئلہ پائیدار طریقے سے حل ہوجائے گا۔

Related Posts