اسرائیل کا حماس کو25ارب،30کروڑ روپے کا ہدیہ!!

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

غزہ پر صہیونی فوج کی جانب سے صبح و شام امریکی ساختہ بموں کی بارش جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 85ہزار ٹن سے زائد بم گرائے جا چکے ہیں۔ جس سے غزہ تو مکمل طور پر کھنڈر بن گیا۔ لیکن کبھی شر سے کچھ خیر کے پہلو بھی برآمد ہوتے ہیں۔ آتش و آہن کی اس صہیونی برسات کے دوران کچھ بم ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہدف پر گرنے کے بعد بوجوہ نہیں پھٹتے اور یہ ناکارہ بم اگرچہ شہریوں کے لیے ایک نیا خطرہ ہیں، تاہم مزاحمت کار انہیں اپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور وہ انہیں کھول کر اس سے مختلف قسم کے ہتھیار تیار کرکے پھر اسرائیل کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یوں اسرائیل کی یہ امانت دوبارہ اسے لوٹاتے ہیں مگر اپنے طریقے سے۔ ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ مکمل محاصرے میں ہے، اس لیے وہاں غذائی اشیاء پہنچنا کا بھی محال ہوگیا ہے، ایسے میں اسلحہ بارود کی رسائی کا کیا مذکور! اس کمی کو مزاحمت کار ان ناکارہ اسرائیلی بموں سے پورا کر رہے ہیں۔

ایک اسرائیلی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی پٹی پر جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے گرائے گئے تقریباً تین ہزار بم پھٹنے سے رہ گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات استعمال کیے گئے کل گولہ بارود کا بیس فیصد حصہ نہیں پھٹ سکا۔ مقامی اور بین الاقوامی ادارے متعدد مرتبہ ان نہ پھٹنے والے گولہ بارود کی موجودگی پر خبردار کر چکے ہیں، جو کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے مختلف علاقوں میں باقی رہ گئے ہیں اور اب وہاں کے مکینوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔

اسرائیلی اخبار “ہآرٹس” نے اپنے اقتصادی ضمیمے “دی مارکر” میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے مطابق، اسرائیلی فوج کی اندرونی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان ناکارہ بموں کو حماس کی عسکری شاخ “کتائب القسام” دوبارہ قابلِ استعمال بنا کر صیہونی فوج کو ان سے نشانہ بنا رہی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج اور عسکری ساز و سامان کو بھاری نقصان پہنچا ہے، اسرائیل کو اپنے ہی بموں سے پہنچنے والے نقصانات میں جنوری 2025 میں ایک ٹینک کی تباہی بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سال 2024 کے اختتام تک اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر چالیس ہزار سے زائد فضائی حملے کیے۔

تین ہزار بم، حماس کے لیے خام مال:

اسرائیلی اقتصادی ویب سائٹ “دی مارکر” کے مطابق، سال 2025 کے آغاز تک اسرائیلی فضائیہ کو اس بات کا علم تھا کہ غزہ پر برسائے گئے بموں میں سے کم از کم تین ہزار بم پھٹنے سے رہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ہر ایک بم، جو کہ تقریباً ایک ٹن وزنی ہوتا ہے، کی لاگت بیس سے تیس ہزار ڈالر کے درمیان ہے۔

ناکارہ بموں کی دوبارہ تیاری:

“دی مارکر” کا کہنا ہے: ان نہ پھٹنے والے بموں کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے اسرائیل نے انجانے میں حماس کو کروڑوں ڈالر مالیت کا دھماکہ خیز مواد ہدیہ کر دیا ہو، وہ بھی پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران، بغیر کسی ارادے یا اختیار کے۔”

رپورٹ مزید کہتی ہے: “چونکہ حماس اسلحہ اور گولہ بارود کی شدید قلت کا شکار ہے، اس لیے وہ اس مواد سے دیسی ساختہ بم بنانے کا کام لے رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہی دیسی بم (IEDs) اسرائیلی فوج کے خلاف جنگ میں ایک کلیدی ہتھیار بن چکے ہیں اور یہ ان کی جانیں لے رہے ہیں۔ ویب سائٹ نے مزید خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کی منظور شدہ حکمت عملی کے بعد، ان بموں کی قیمت اسرائیل کو جانی نقصان کی صورت میں کہیں زیادہ بھگتنی پڑ سکتی ہے۔

ایک سیکورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان بموں کے نہ پھٹنے کی بنیادی وجہ تکنیکی خرابی ہے۔ اسرائیل بموں کو پھٹانے والے آلے کی کمی کا شکار ہے۔ اس لیے ناکارہ بموں کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پر کی جانے والی ہزاروں فضائی کارروائیوں نے اسرائیلی فوج کے بم پھٹانے والے آلات— یعنی “فیوزز” — کے ذخیرے کو شدید متاثر کیا ہے۔ ویب سائٹ “دی مارکر” کے مطابق، اگر کوئی اس صورتحال کی ایک زندہ مثال دیکھنا چاہے تو وہ اسرائیلی کمپنی “آریت” کے حصص کی قیمت میں 2000 فیصد سے زیادہ کے اضافے میں دیکھ سکتا ہے، یہ وہ کمپنی ہے جو مذکورہ فیوزز تیار کرتی ہے اور اس جنگ کے آغاز سے ہی اس کی قدر میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

پرانے فیوزز کا استعمال اور اس کے نتائج:

فیوزز کی قلت کے باعث، اسرائیلی فوج نے پرانے اور ذخیرہ شدہ فیوزز استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں، جنہیں مختلف ذرائع سے جمع کیا گیا یا امریکہ سے حاصل کیا گیا، ان میں سے بعض تو کئی دہائیوں پرانے ہیں۔ “دی مارکر” کے مطابق، جہاں جنگ سے پہلے نہ پھٹنے والے بموں کی شرح صرف 2 فیصد تھی، وہیں بعض اوقات یہ شرح اب 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یعنی ہر پانچ بموں میں سے ایک پھٹنے میں ناکام رہا، خاص طور پر وہ بم جو اسرائیلی فضائیہ نے حالیہ عرصے میں غزہ پر برسائے۔

استعمال، خطرناک نتائج:

ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ حماس کی عسکری شاخ “کتائب القسام” کے لیے ان ناکارہ بموں کو استعمال کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وہ اس کام میں وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ اکثر وہ بم کو کاٹ کر اس میں موجود دھماکہ خیز مواد نکالتے ہیں اور اسے ایک بڑی دھات کے کنٹینر میں محفوظ کرکے ایک مؤثر دیسی بم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف اسرائیلی فوجی کارکردگی پر سوال اٹھا رہی ہے بلکہ حماس کو ایک غیر متوقع “مدد” بھی فراہم کر رہی ہے، جس کا اثر میدانِ جنگ میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ بعض صورتوں میں حماس کے جنگجو بم کو جوں کا توں رکھتے ہیں اور اسے ایک دھاتی تار کے ذریعے متحرک کر دیتے ہیں، یعنی بغیر کسی پیچیدہ ترمیم کے اسے بطور دیسی بم استعمال کرتے ہیں۔ جب “دی مارکر” نے اس سلسلے میں اسرائیلی فوج سے ردِعمل جاننا چاہا تو ایک فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ: “غزہ میں ہزاروں گولہ بارود کے استعمال کے باوجود، صرف ایک قلیل تعداد ایسے بموں کی ہے، جو مکمل طور پر اپنے ہدف پر پھٹنے میں ناکام رہے۔” ترجمان نے مزید کہا: “اسرائیلی فوج کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ وہ نہ پھٹنے والے بموں کا سراغ لگا کر انہیں موقع پر ہی تباہ کرے، تاکہ خطرہ کم کیا جا سکے۔” لیکن زمینی حقائق اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ غزہ کی گلیوں اور کھیتوں میں پھیلے ہوئے اسرائیلی بم اور دیگر جنگی باقیات اب بھی فلسطینی شہریوں کی زندگیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان بموں کی موجودگی میں نہ صرف مزید جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے بلکہ معذوری جیسے مستقل نتائج کا سبب بھی بن رہی ہے، جبکہ مقامی سطح پر نہ تو کوئی ضروری آلات موجود ہیں اور نہ ہی خاطر خواہ وسائل، جن کے ذریعے ان بموں کو محفوظ طریقے سے ناکارہ بنایا جا سکے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے امریکی حمایت میں جاری اسرائیلی بمباری غزہ میں ایک ہولناک نسل کشی میں تبدیل ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں اب تک1,71,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، جبکہ 11,000سے زیادہ افراد لاپتا ہیں۔

9 کروڑ ڈالر کا ہدیہ:

غزہ پر گرائے گئے تقریباً 3000بم بوجوہ نہ پھٹ سکے۔ جن میں ہر بم کا وزن کم ازکم ایک ٹن ہے۔ ہر بم کی قیمت 20,000 سے 30,000 امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر ہم کم سے کم قیمت سے شروع کریں تو ان بموں کی مجموعی قیمت6 کروڑ ڈالر اور زیادہ سے زیادہ قیمت9کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ جوکہ پاکستانی کرنسی میں25ارب،30کروڑ،80لاکھ روپے بنتی ہے۔ یہ اسلحہ اب بالواسطہ طور پر حماس کو منتقل شدہ دھماکہ خیز مواد کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

ناکارہ بموں کا استعمال:

حماس نے بمباری سے بچ جانے والے بموں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیا ہے۔ انہیں “نہ پھٹنے والے بم” (Unexploded Ordnance – UXO) کہا جاتا ہے، یہ حماس کے لیے ایک اہم دھماکہ خیز مواد اور نعمت غیر مترقبہ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ حماس نے اسرائیلی بموں کو دوبارہ استعمال کرنے کے متعدد طریقے اپنائے ہیں:

میکانیکی طریقہ: بعض اوقات حماس کے جنگجو بم کو جوں کا توں رکھتے ہیں اور اسے ایک دھاتی تار کے ذریعے متحرک کر دیتے ہیں، یعنی بغیر کسی پیچیدہ ترمیم کے اسے بطور دیسی بم استعمال کرتے ہیں۔

دھماکہ خیز مواد نکالنا: زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بم کو کاٹ کر اس میں موجود دھماکہ خیز مواد نکالتے ہیں اور اسے ایک بڑے دھات کے کنٹینر میں محفوظ کرکے ایک مؤثر دیسی بم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

مقامی سطح پر استعمال: غزہ میں حماس نے اسرائیلی بموں کو مقامی سطح پر استعمال کرنے کی مہارت حاصل کی ہے، جو کہ ان کے جنگی وسائل کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

استعمال کی تاریخ:

حماس نے اسرائیلی بموں کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کا عمل 2005 سے شروع کیا تھا۔ مثال کے طور پر، 23 ستمبر 2005 کو جب حماس نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ایک جلوس نکالا، تو ایک سلسلہ وار دھماکوں میں 19 فلسطینی شہید ہوئے۔ حماس نے اس واقعے کو اسرائیلی فضائی حملہ قرار دیا، تاہم فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں نے اسے حماس کے اپنے اسلحے کے حادثاتی دھماکے کے طور پر بیان کیا۔

خطرات اور عالمی ردعمل:

غزہ میں اسرائیلی بموں کی موجودگی حماس کے لیے ہتھیاروں کا ایک اہم ذریعہ تو ہے، لیکن یہ عام شہریوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) کے مطابق، 2024 کے اپریل تک غزہ میں تقریباً 7,500 ٹن ناکارہ بم موجود تھے، جن کی صفائی کا عمل 14 سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ بم نہ صرف حماس کے لیے بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ ہیں، جو روزانہ کی زندگی میں رکاوٹ اور جانی نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ اسرائیل کے لیے فوجی، مالی اور اسٹرٹیجک تینوں سطحوں پر اہم اور خطرناک نوعیت کا ہے۔

فوجی فائدہ:

حماس کو ان بموں سے ہزاروں کلوگرام اعلیٰ درجے کا دھماکہ خیز مواد حاصل ہو رہا ہے، جو وہ دیسی ساختہ بم (IEDs)، راکٹ اور مارٹر بنانے میں استعمال کر رہی ہے۔

وسائل کی بچت:

حماس کو باہر سے مواد اسمگل کرنے یا مہنگے اور نایاب کیمیکل حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اسرائیلی بم خود مواد کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

براہِ راست حملے:

متعدد رپورٹس (جیسے دی مارکر) کے مطابق، جنوری 2025 میں ایک اسرائیلی ٹینک انہی بموں سے تباہ کیا گیا جو پہلے پھٹنے سے رہ گیا تھا اور بعد میں حماس نے اسے دوبارہ استعمال کیا۔

پروپیگنڈہ جیت:

حماس اسرائیلی اسلحہ کو اسرائیلی فوج کے خلاف استعمال کرکے “میدان میں ان کے ہتھیاروں سے انہی کو مارنے” کا بیانیہ بنا رہی ہے، جو نفسیاتی جنگ میں ایک برتری فراہم کرتا ہے۔

ڈر اور نقصان کا عنصر:

اسرائیلی فوج کے لیے اب ہر بم ایک دوہرا خطرہ بن چکا ہے، اگر وہ نہ پھٹا تو حماس اسے واپس ان کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ حماس کو ان ناکارہ بموں کی صورت نہ صرف اربوں روپے مالیت کا جنگی سامان ملا ہے، بلکہ یہ اسرائیل کے خلاف زمینی جنگ میں فوری، مؤثر اور سستا ہتھیار بھی بن گیا ہے۔

Related Posts