دنیابھرکی منی لانڈرنگ پرتفتیشی رپورٹ پینڈورا پیپرز کی تفصیلات سامنے آگئیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیابھرکی منی لانڈرنگ پرتفتیشی رپورٹ پینڈورا پیپرز کی تفصیلات سامنے آگئیں
دنیابھرکی منی لانڈرنگ پرتفتیشی رپورٹ پینڈورا پیپرز کی تفصیلات سامنے آگئیں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

واشنگٹن: دنیا بھر کی منی لانڈرنگ، جعلسازی، ٹیکس چوری اور آف شور کمپنیوں میں غیر قانونی سرمایہ کاری سے متعلق تفتیشی رپورٹ پینڈورا پیپرز کی تفصیلات منظرِ عام پر آگئی ہیں جن کا حجم 3 ٹیرابائٹ کے لگ بھگ ہے۔

تفصیلات کے مطابق غیر سیاسی صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کو 117 ممالک کے 600 صحافیوں نے تحقیقاتی کردار ادا کرتے ہوئے تیار کیا جس کا مقصد منی لانڈرنگ بے نقاب کرنا ہے۔

تحقیقاتی صحافت کے تحت تیار کی جانے والی رپورٹ میں دنیا کے 330 حکومتی اہلکار، سیاستدان اور 130 ارب پتی افراد کی تفصیلات شامل ہیں جن میں حکمران اور اپوزیشن سیاستدان، صنعتکار، فنکار، کھلاڑی، منشیات کے اسمگلرز اور اسلحہ فروش بھی شامل ہیں۔

صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی رپورٹ میں 200 ممالک کے اشرافیہ سے متعلق 1 کروڑ 20 لاکھ دستاویزات شامل ہیں جس کا ڈیٹا 3 ٹیرا بائٹ کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے جس میں ٹیکس چوری کی مکمل داستان شامل ہے۔

پینڈورا پیپرز کے نام سے شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی اثاثے کس طرح جمع کیے جاتے ہیں، ٹیکس چوری کیلئے انہیں کیسے خفیہ رکھا جاتا ہے، منی لانڈرنگ کیسے ہوتی ہے اور غیر قانونی ذرائع سے کس شخص نے کتنی آمدن جمع کی اور اسے کہاں چھپایا۔

بنیادی طور پر کوئی آف شور کمپنی یا اثاثے بنانے کا عمل غیر قانونی قرار نہیں دیا جاتا، تاہم پینڈورا پیپرز کا مقصد ایسے غیر قانونی اثاثے سامنے لانا ہے جو ٹیکس چوروں، منی لانڈررز اور ملک کی نامور شخصیات نے اپنے ہی ملک سے چھپا کر بنائے اور ٹیکس چوری کی۔

تحقیقات کے مطابق 14 آف شور کمپنیوں سے جاری کی جانے والی دستاویزات کے تحت بدعنوان افراد نے ایسے ممالک میں اپنا سرمایہ لگایا جہاں عام طور پر پیسہ لگانے کے ذرائع پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا یا پھر قوانین نرم اور شرحِ ٹیکس کم رکھی گئی ہے جس میں 700سے زائد پاکستانی شامل ہیں۔

 آئی سی آئی جے کی فہرست میں متعدد سیاسی شخصیات اور حکمرانوں کے نام بھی شامل ہیں جس سے ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ زیادہ تر آف شور کمپنیاں پاناما، ہانگ کانگ، شیلز، بیلز، قبرص، برٹش ورجن آئی لینڈ اور قبرص میں بنیں جن کا مقصد ٹیکس کی چوری تھا۔ 

آف شور کمپنیوں کا دائرۂ کار سنگاپور، بہاماس، چین، لیٹویا، جنیوا، کوسٹاریکا، نیوزی لینڈ، کوک آئی لینڈ، جبرالٹر اور دیگر ممالک تک پھیلایا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کرنے والے افراد نے ٹیکس چوری اور بدعنوانی کیلئے دولت کا بھرپور استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ، چین کا کورونا ویکسین کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ

Related Posts