ملکی معیشت اور کرنسی کے مسائل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافہ پاکستانی عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ واقعہ کرنسی کے نظام کو سمجھنے کی اہمیت اور معیشت پر اس کے اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔

ماضی کی جانب جائیں تو بارٹر ٹریڈ سامان اور خدمات کے تبادلے کا بنیادی نظام تھا۔ تاہم تہذیب اور تجارت کی ترقی کے ساتھ کرنسی کا استعمال قدر کے تبادلے کا ایک زیادہ مؤثر ذریعہ بن گیا ہے۔ ایشیا میں 48 ممالک ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی کرنسی ہے اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔  ہمارے ملک میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان پاکستانی روپے کو جاری کرنے اور ریگولیٹ کرنے کا ذمہ دار ہے۔

گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 9 روپے کا اضافہ ہوا۔ انٹر بینک ریٹ اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھے اور 17 روپے 89 روپے کے اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت 283 روپے تک جا پہنچی۔ اسی دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر 284روپے میں فروخت ہورہا تھا۔ یہ معاملہ پاکستانی معیشت پر منفی انداز سے اثر انداز ہوا۔

کرنسیوں کے درمیان شرح تبادلہ کا تعین طلب اور رسد کی مارکیٹ قوتوں سے ہوتا ہے۔ جب کسی کرنسی کی طلب اس کی رسد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے، اور اگر کمی ہو تو صورتحال برعکس ہوجاتی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے پاکستانی روپے کی قدر گر رہی ہے اور امریکی ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔ اس رجحان کے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

سب سے پہلے، ایک کمزور کرنسی درآمدات کو زیادہ مہنگا کردیتی ہے جس سے شہریوں کی زندگی ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درآمد شدہ اشیاء  جیسے تیل اور خوراک، زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں، اور مقامی کاروبار ان بڑھتے ہوئے اخراجات کو اپنے صارفین تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے عمومی مہنگائی بھی بڑھتی ہے اور عوام کے معیارِ زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دوم، کمزور کرنسی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے روک سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمزور کرنسی سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والے منافع کو کم کر دیتی ہے، جس سے یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کم پرکشش ہو جاتی ہے۔ اس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو سکتی ہے جس سے ملک کی اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک اہم اثر یہ ہے کہ کمزور کرنسی ملک کے قرضوں کے بوجھ کو بڑھا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان امریکا یا دوست ممالک سے امریکی ڈالرز میں قرض لیتا ہے۔ جب ملکی کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے، تو ملک کے لیے اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی زیادہ مہنگی ہو جاتی ہے، جس سے قرضوں کا مجموعی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
بیرونی سرمایہ کار تو بیرونی، گھریلو سرمایہ کار بھی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ گھریلو سرمایہ کار مضبوط کرنسیوں میں زیادہ منافع کی تلاش میں اپنے فنڈز ملک سے باہر منتقل کر دیتے ہیں۔ اس سے سرمائے کی کمی ہو سکتی ہے، جو ملک کی سرمایہ کاری اور ترقی کے امکانات کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔

مزید برآں، کمزور کرنسی ادائیگی کے توازن کا بحران پیدا کر سکتی ہے، جہاں کسی ملک کی درآمدات اس کی برآمدات سے زیادہ ہو جاتی ہیں، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ ہوتا ہے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو سکتی ہے، جس سے ملک کے لیے اپنی غیر ملکی ذمہ داریوں کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

تمام تر بحث کا ماحصل یہ ہے کہ کمزور کرنسی کسی ملک کی معیشت پر کئی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے، بشمول زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، قرضوں کے بوجھ میں اضافہ، سرمائے کی پرواز اور ادائیگی کے توازن  کا  بحران۔ اس لیے حکومت اور پالیسی سازوں کے لیے کرنسی کے استحکام اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنا بہت ضروری ہے۔

Related Posts