آئی ایم ایف سے وابستہ امیدیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ کئی ہفتوں  سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین قرض پروگرام کی بحالی سے متعلق مذاکرات ہو رہے تھے اور دو روز قبل یہ خبر سننے کو ملی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں جس سے پاکستان 6 ارب ڈالر کے رکے ہوئے فنڈ پروگرام کی بحالی کے قریب آگیا ہے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ نے مثبت رجحان کا مظاہرہ کیا، کے ایس ای 100 انڈیکس میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا،ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں استحکام آنا شروع ہوگیا اور پھر چینی بینکس نے بھی پاکستان کے ساتھ 2.3ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کردئیے۔

بلاشبہ پاکستان کو یہ قرض کچھ شرائط کے ساتھ ملے گا۔ حکومت نے 436ارب روپے کا اضافی ٹیکس عائد کرنے، پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر تک بتدریج لاگو کرنے اور وفاقی بجٹ میں کچھ مالیاتی طور پر ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے جن سے آئی ایم ایف راضی نہیں۔

پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے مجوزہ بجٹ میں ترامیم سے حکومت بنیادی بجٹ سرپلس 152 ارب روپے اور مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد تک لانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ اس سے ایف بی آر کا کام قدرے مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اب ٹیکس وصولی کا ہدف 7.4 ٹریلین ہوگا جس کیلئے 24 فیصد مزید ٹیکس وصولی کرنی پڑے گی۔

اچھی خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف پیٹرولیم لیوی پر یکمشت 30 روپے فی لیٹر عائد کرنے کے مطالبے سے دستبردار ہوا ہے اور پیٹرول اور ڈیزل پر 10 اعشاریہ 7 فیصد سیلز ٹیکس بھی ختم کیا گیا ہے۔ بجٹ میں مجوزہ ترامیم اور مالیاتی اہداف کو اسٹیٹ بینک کے ساتھ حتمی شکل دینے کے بعد آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے کو منظور کرے گا جس کے بعد کم و بیش 1 ارب ڈالر کی رکی ہوئی قسط جاری کردی جائے گی۔

وفاقی حکومت پر امید ہے کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کا حجم 8 ارب ڈالر جبکہ مدت جون 2023 تک بڑھ جائے گی، تاہم آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرلینے کی وجہ سے مہنگائی کا شکار کم سے متوسط آمدن والے گھرانے جو پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی ہوشربا قیمتوں سے پریشان حال ہیں،آئندہ ماہ سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں زبردست اضافے کیلئے خود کو تیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں وفاقی حکومت طویل المدتی پائیدار ترقی کیلئے گہری ساختی تبدیلیاں کرے تاکہ عوام کو بار بار کے معاشہ دھچکوں اور مستقبل کے عالمی معاشی بحران سے بچایا جاسکے۔