ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مخمصہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کی خبروں کے باعث تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ اتحادی حکومت میں شامل بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے متنازعہ معاملے پر بحث کیلئے قومی اسمبلی و سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔

حال ہی میں پی پی پی کے سینیٹر رضا ربانی نے خود کو تحریکِ طالبان پاکستان کہنے والی دہشت گرد تنظیم کے معاملے پر حکومت سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اپنے لوگ جیل میں ہیں اور ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔

رضا ربانی نے اپنے بیان میں رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کا حوالہ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے مطالبے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر بریفنگ دی گئی۔

دراصل معاشی محاذ پر مشکلات کا شکار وفاقی حکومت نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا انکشاف کرکے ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیا ہے۔ جون کے اوائل میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں “کافی پیشرفت” کا حوالہ دیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی ٹی ٹی پی نے غیر معینہ جنگ بندی کا اعلان بھی کیا جسے خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حالیہ برسوں میں کئی بار مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ٹوٹ گیا۔ 

ماضی میں افغان حکومت کی ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھنے کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی پاکستان پر دہشت گردوں نے حملے جاری رکھے ہوئے تھے اور آج بھی دہشت گردی کا یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔

معروف تھنک ٹینک بروکنگز کا کہنا ہے کہ 2007 سے لے کر اب تک ٹی ٹی پی کے حملوں میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے مسلسل دعویٰ کیا کہ پاکستان میں کوئی منظم دہشت گردی کا نیٹ ورک باقی نہیں بچا۔

یہ وہ بیان ہے جسے پاکستان کے شہری غیر اہم قرار دے سکتے ہیں تاہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جیسے ادارے اور غیر ملکی شہری ایسے بیانات کو بڑی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں جس پر ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے۔

عمران خان کے دورِ حکومت میں ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو موجودہ اتحادیوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن اتحاد نے اس پر کڑی تنقید کی تھی، مگر موجودہ سیٹ اپ نے بڑی آسانی سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا اعتراف کر لیا۔

امریکا کے دورے کے دوران موجودہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجھے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا علم ہے تاہم مذاکرات کی تفصیلات فی الحال میرے علم میں نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان روس کے دورے پر خارجہ پالیسی کے تحت گئے تھے۔ 

حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالے جانے کا امکان سامنے آیا جس کے نکات میں ٹیرر فنانسنگ، منی لانڈرنگ اور دیگر معاملات اہم ہیں۔

وقت ہی بتائے گا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے دوران مذکورہ دہشت گرد تنظیم اپنے وعدوں اور یقین دہانیوں پر قائم رہتی ہے یا نہیں اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر ماضی کی طرح پاکستان کو معاہدوں کے باوجود دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے گا؟

Related Posts