کراچی کو پبلک ٹرانسپورٹ کب نصیب ہوگی ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حکومت سندھ کے محکمہ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی مجموعی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، گزشتہ سال بسیں بنانے والی نجی کمپنی کے ساتھ معاہدےپر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

گزشتہ سال بسیں بنانے والی کورین کمپنی کے ساتھ حکومت سندھ محکمہ ٹرانسپورٹ کے تحت ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت گزشتہ سال ابتدائی 2 ماہ میں 200 کم ترین کرایہ وصول کرنے کے اصول پر چلائی جانی تھیں جبکہ ایک سال میں مجموعی طور پر مختلف روٹس پر 1ہزار بسیں شہر میں چلائی جانی تھیں۔

معاہدہ سندھ حکومت کے دیگر کراچی میں بسیں چلانے جیسے اعلانات کی طرح دھوکہ ثابت ہوا ، ڈائیو کمپنی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو سکا ،حال ہی میں سندھ حکومت نے ایک اور خوشخبری دی کہ الیکٹرونکس بسیں جو ابتدائی طور پر 10 ہیں اور سہراب گوٹھ سے ایم اے جناح  روڈ پر چلائی جا رہی ہیں ان کی تعداد 3 ماہ میں 100 کردی جائے گی ،کراچی کے شہریوں کی بد نصیبی دیکھیں کہ گرین لان بس سروس 5 سال سے زیر تعمیر ٹریک اور بس اسٹیشنز کا کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

شہریوں نے تاخیری حربے استعمال کرنے پر مقدمات بھی کیے تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا،سندھ ہائی کورٹ میںرپورٹ جمع کرائی گئی تھی کہ مارچ 2021 میں ایک منصوبے کا دوسرا حصہ بھی مکمل ہو جائے گا اور جلد 80 بسیں کراچی پہنچ جائیں گی ، عدالت کو بتایا گیا کہ بسوں کے حصول کے لیے چائنیز کمپنی سے معاہدہ بھی ہو چکا ہے ، مگروفاقی حکومت کے 26 فروری 2016 کو شروع ہونے والے منصوبے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ا ور سندھ حکومت کے منصوبے اورنج لائن ( مولانا ایدھی لائن) بس منصوبے کی نہ توبسیں آئیں نہ ہی اس کے ٹریک اور اسٹیشنز کی تعمیر مکمل ہو سکی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے زیادہ تاخیر کا مقابلہ کر رہی ہوں۔شہر قائد میں صرف کراچی ٹرانسپوٹ کارپوریشن کی بسوں سے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر تھی ، کے ٹی سی بسیں شہر کے مختلف علاقوں میں دستیاب تھیں ،1990 کی دھائی تک شہریوں کو ایک بہتر سفری سہولتیں حاصل تھیں، کرپٹ عناصر نے کے ٹی سی کے ڈپوز سے قیمتی اشیاء چرا کر فروخت کرنا شروع کیں ، سرکاری افسران ایک گاڑی کو کئی بار دستاویزات میں تیار کر کے بھاری مالی نقصان پہنچاتے تھے ۔

کے ٹی سی کا خسارہ اس قدر بڑھا کہ اسے مکمل بند کر دیا گیا اور اس کے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ، اس کی بسیں من پسند لوگوں کو اونے پونے روخت کی گئیں، کے ٹی سی بسیں اور ادارہ بند ہونے کا نقصان کراچی کے غریب شہریوں کو بھگتنا پڑا ۔ بعد ازاں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ ایڈوکیٹ ( مرحوم ) کے دور میں2003 میںمیٹرو بس سروس متعارف کرائی گئی ، اس سے کراچی کے عوام کو کچھ غنیمت سفری سہولت ملنا شروع ہو گئی تاہم یہ بھی مخصوص علاقوں تک محدود تھیں ، بعد ازاں نعت اللہ کے بعد منتخب ہونے والے سابق ناظم سید مصطفیٰ کمال نے اپنے دور اقتدار میں سال 2007 میں 50 بسوں کے بیڑے پر مشتمل گرین بس سروس شروع کی جو سی این جی ایندھن استعمال کرنے والی پہلی پبلک ٹرانسپورٹ سروس تھی ۔

سابق ناظم مصطفیٰ کمال کا دور اقتدار کیا ختم ہوا ، شہر کراچی سے پینے کا پانی،سڑکوں کی صفائی ، کچرا اٹھانا ، ہریالی کے ساتھ خوبصورت پارک ، فیلڈ لائٹس سے مزین کھیل کے میدان او ر پبلک ٹرانسپورٹ کے بیڑے میں شامل گرین بسیں بھی غائب ہو گئیں، اس دور کی تمام بسیں بس ٹرمینلز پر کھلے آسمان کے نیچے دھوپ ، بارش اور گرد و غبار میں گل سڑکر تباہی کا شکار ہو گئیں۔اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے شہر میں (یو ٹی ایس) بس سروسزشروع کی گئی جو سندھ حکومت کی نمائشی بس سروس تھی کیوں کہ یہ صرف مخصوص علاقوں کے درمیان چلائی جاتی تھی ،پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر سیاسی کھیل بھی ہمیشہ جاری رہا ہے ، 2007 میں نئی50 سی این جی بسیں منگوائی گئیں تھیںجن پر 25 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔

شہری حکومت نے سی این جی کی عدم دستیابی اور مرمت کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث ان بسوں کو بند کر دیا تھا، کراچی کے شہریوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ برداشت کر سکتے ہیں تو رکشہ ، ٹیکسی میں سفر کریں ورنہ گھروں پر رہیں۔سندھ حکومت نے بلدیاتی نظام شہری حکومت کی بساط ہی لپیٹ دی تھی جس کے بعد سےفرسودہ کمشنری نظام رائج ہے اور اس میں موجود بلدیاتی نظام میں کسی بھی بلدیاتی ادارے کے منتخب سربراہ کے پاس اختیارات ہی موجود نہیں ہیں۔

اس شہر مختلف روٹس پر نجی بسیں لگ بھگ 4000 کی تعداد میں رہ گئی ہیں۔ جن میں شہریوں کی ایک معمولی تعداد ہی سفر کر پاتی ہیں۔سابق سٹی گورنمنٹ جو اب بلدیہ عظمیٰ کراچی ہے ، اس کے پاس پڑی کے ایم سی کی( سی این جی) بسیںایک سازش کے تحت سندھ حکومت نے اپنے سیاسی رہنماوں کو مبینہ طور پر انتہائی کم قیمت پر نماشی نیلامی میں تحفتاً دے دی تھیں ، جس کو ایک پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ کا نام دیا گیا اور کہا گیا کہ خراب گاڑیاں تھیں اب یہ نجی پارٹنر ان گاڑیوں کی مرمت کرواکر سڑکوں پر لے آئیں گےتاہم ایسا نہیں ہوا ۔

دراصل معاہدے سے شہریوں کو لا علم رکھا گیا اور اندرون خانہ یہ گاڑیاں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر من پسند سیاسی رہنماؤں کو اونے پونے دام میں فروخت کر دی گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سندھ حکومت آج بھی کراچی کے شہریوں سے مخلص نظر نہیں آتی ، پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بھی منصوبہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتا ، معاہدے تو بہت ہو چکے مگر بسیں صرف 10 ہیں جو الیکٹرونکس بسوں کے نام پر کراچی میں چل رہی ہیں جس کا کرایہ 10 روپے فی کلو میٹر رکھا گیا ہے ، اس بس میں بھی شکایت یہ مل رہی ہیں کہ کبھی آتی نہیں ہیں تو کبھی ان کے اے سی خراب ہ جاتے ہیں۔

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا واحد حل لوکل ٹرین یا سرکلر ریلوے ہے ، جس میں ان گرین یا اورنج بسوں کے روٹ ٹریک کے بجائے یہاں لوکل ٹرین کا ٹریک ڈال کر ٹرینیں چلانا چاہیے ۔ اس سے شہریوں کو ایک بہترین اور بر وقت منزل پر پہنچانے والی سواری میسر آجائے گی جبکہ مختلف روٹس سے چلنے سے اس میں سفر کرنے والوں کی تعداد مین بتدریج اضافہ ہو گا اور لوگ سستے سفر کی خاطر اپنی موٹر سائیکل اور کاریں استعمال کرنے کے بجائے لوکل ٹرین میں سفر کرنا پسند کرینگے کیوں کہ ذاتی گاڑی چھوٹی ہو یا بڑی ان کی پارکنگ بھی ایک عذاب سے کم نہیں ، اس لیے لوگ پھر ٹرین میں سفر کو ترجیح دیں گے تاہم اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کراچی کی 3 کروڑ آبادی سے مخلص ہونا بے حد ضروری ہے۔

Related Posts