اسلام اور بیماری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عموماً جب ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اسلامی نقطہ نظر سے بیماری ایک ایسی طاقتور نعمت ہے جو ہم سے کیے گئے گناہوں کا کفارہ بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک میں بتاتا ہے کہ اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ آیت 30) مصیبت کچھ بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ بیماری، کسی عزیز کی موت، مالی تنگی  یا کسی اور طرح کی تکلیف اور مصیبت سب اس میں شامل ہیں۔

حضورِ اکرم ﷺ کی متعدد احادیث ہیں جن میں ہمیں بخار پر لعنت نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ یہ گناہوں کا کفارہ ہے۔ ہمارے نبی ﷺ نے ام سائب رضی اللہ عنہا کی عیادت کی جب وہ بخار میں مبتلا تھیں اور ان سے پوچھا: اے ام سائب، تجھے کیا تکلیف ہے؟ تم کانپ رہی ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ بخار ہے۔ اللہ نے اس میں برکت نہیں دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بخار کو برا نہ کہو۔ بے شک یہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے سے میل کچیل دور کر دیتی ہے۔” (صحیح مسلم 2575) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا خوب تشبیہ ہے چونکہ ہم جانتے ہیں کہ لوہے میں بہت سی نجاستیں ہیں لیکن جیسے ہی ہم اسے بھٹی میں رکھ کر باہر نکالتے ہیں تو بالکل پاک ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بخار کا تقابل بھٹی سے کرنا مناسب ہے کیونکہ دونوں ہی انسان کو جلاتے ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے بیماری کو خزاں کے موسم میں درخت سے گرنے والے پتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ  کسی مسلمان کو بیماری یا کسی اور تکلیف سے تکلیف نہیں پہنچتی لیکن (اس سے پہلے) اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے (خزاں کے دوران) درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ (صحیح البخاری 5667)۔ ایک بار پھر، یہ تمام احادیث واضح کرتی ہیں کہ بیماری دراصل ایک اہم نعمت کا دوسرا نام ہے۔

بیماری کے ذریعے گناہ کے کفارے کا یہ تصور ہمارے ساتھ پیش آنے والی تمام آفات اور مصیبتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان پر کوئی مصیبت نہیں آتی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے، اگرچہ (وہ مصیبت) کسی کانٹے کا چبھنا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح بخاری 5640)۔ ایک اور حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ کتنا اچھا ہوتا ہے۔ بے شک اس کے سارے معاملات اس کے لیے اچھے ہیں۔ یہ مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کچھ اچھا ہو جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے اچھا ہے۔ اور اگر اسے کچھ برا ہو جائے تو اس نے صبر کیا جو اس کے لیے اچھا ہے۔” (صحیح مسلم)

مندرجہ بالا احادیث میں نبئ آخر الزمان ﷺ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ مومن ہمیشہ فاتح ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی بیماری یا مصیبت کا سامنا کر رہا ہو اور یہ کہ بھلائی اور کامیابی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر کسی مومن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے، اللہ کی مدد کا انتظار کرتا ہے، اور اللہ سے اجر کا طالب ہوتا ہے۔ مزید  یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی مومن کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے چاہے وہ مذہبی ہو، جیسے علم یا نیک عمل، یا عام نعمت مثلاً مال یا اولاد، تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے۔ مومن کی اچھی اور بری دونوں حالتوں میں اس کے لیے خیر کے سوا کچھ نہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب بھی کوئی مومن بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس موقع کو مومن کے گناہوں کو معاف کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور مومن کو غوروفکر اور بہتر انسان بننے کا وقت دیتا ہے۔ بعض اوقات ہم دنیاوی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی وجہ سے مغرور ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی بیماری یا آفت آتی ہے تو ہم اچانک عاجز ہو جاتے ہیں۔ نیز، ہمیں احساس ہوجاتا ہے کہ ہم فانی اور اللہ کے بندے ہیں۔ ہماری بیماری کے دوران، ہمارے خاندان اور دوست ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہم سے ملتے ہیں جس کی وجہ سے ہم خاندان اور دوستوں کی نعمتوں کی بہتر تعریف کرتے ہیں جو شاید ہمارے صحت مند ہونے پر ہمارے پاس نہ ہو۔ بیماری سے گزرنا اپنے ایمان کو بحال کرنے اور زندگی کی تمام چھوٹی نعمتوں کی قدر کرنے کے مترادف ہے۔

اچھی صحت اور وقت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے میں ہیں، اول اچھی صحت اور دوم فارغ وقت۔ (صحیح  بخاری)۔ یہ بیان ہم میں سے اکثر کے لیے کتنا درست ہے کہ ہم ان دو نعمتوں کی قدر نہیں کرتے جب تک وہ ختم نہ ہو جائیں۔

بیماری اور آفت کے دوران ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے میں اضافہ حاصل کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت اور بیمار شخص پر آیت الکرسی دم کرکے روحانی شفا حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزید برآں، جسمانی شفا کے بارے میں، عام صحت کے لیے، ہمارے نبی ﷺ نے روزانہ شہد اور کلونجی کے استعمال کی ہدایت کی جبکہ اپنی بیماری کے مخصوص علاج کے لیے ہمیں معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہمیں دوا کھانی چاہیے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اے اللہ کے بندو دوائی کھاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں بنائی جس کا علاج نہ ہو سوائے ایک کے۔ انہوں نے پوچھا کہ کون سی؟ رسول اللہ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بڑھاپا۔ اس روئے زمین پر ہر ایک بیماری کا علاج موجود ہے اور اس لیے ہمارے مسلمان طبی محققین اور سائنسدانوں کے لیے ان علاجوں کو دریافت کرنے کی تحریک ہونی چاہیے۔

جب بھی ہم پر کوئی بیماری یا آفت آتی ہے تو ہمیں تین چیزوں کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے: اول یہ کہ بیماری میں ہماری حالت اس سے زیادہ بدتر نہیں ہوتی جتنا کہ ہم برداشت کرسکیں، دوم یہ کہ ہمارے پاس موجود دیگر نعمتوں سے ہمیں آگہی ہوتی ہے اور سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتے ہوئے کہ ہم بیماری سے نکل سکتے ہیں، ہمیں بیمار کرکے آزماتا ہے۔ 

Related Posts