کیا عمران خان کیلئے ترین و علیم گروپس کو ساتھ ملا کر اب بھی حکومت بچانا ممکن ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوچکی ہے تاہم وزیراعظم عمران خان اب بھی حکومت بچانے کیلئے پرعزم لیکن سوال یہ ہے کہ اتحادیوں کے الگ ہونے کے بعد عمران خان وزارت عظمیٰ کیسے بچاپائینگے؟۔

قومی اسمبلی میں حکومتی بینچوں پر ارکان کی تعداد

342 کے ایوان میں پاکستان تحریک انصاف 155 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر موجود ہے ۔پاکستان مسلم لیگ ق کی 5، جی ڈی اے کی 3، عوامی مسلم لیگ کی ایک سیٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 164ارکان موجود ہیں۔

اپوزیشن سیٹوں کی تعداد

قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس 84 ،پیپلزپارٹی کے پاس56 ،متحدہ مجلس عمل کے پاس 15،بی این پی ملی کے پاس4، عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ایک اور دو آزادارکان کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی 7،بی اے پی کی 4 اور آزاد ارکان کی حمایت ملنے کے بعد مجموعی تعداد 178ارکان کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔

عمران خان اوروزارت عظمیٰ

اتحادی کے حکومت سے الگ ہونے کے بعد بادی النظر میں وزیراعظم عمران خان عددی اکثریت کھوچکے ہیں جس کے بعد ایوان میں اپوزیشن کو سادہ اکثریت مل چکی ہے اور اگر تحریک انصاف کے ناراض اراکین عمران خان کے حق میں بھی ووٹ دیتے ہیں تب بھی ان کیلئے وزارت عظمیٰ بچانا کسی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں درکار نمبرز پورے کرلئے ہیں۔

اتحادیوں کا فیصلہ

اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت اخلاقی طور پر اپنا جواز کھوچکی ہے۔ صرف مسلم لیگ ق 5سیٹوں کے ساتھ اب بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہے جبکہ 7 سیٹوں والی ایم کیوایم اپوزیشن اتحاد کا حصہ بن چکی ہے اور بی اے پی اور بلوچستان سے آزاد رکن اسلم بھوتانی بھی اپوزیشن کی طرف جاچکے ہیں ۔

ناراض پی ٹی آئی ارکان

پاکستان تحریک انصاف کو اتحادیوں کی علیحدگی کے علاوہ اپنے پارٹی اراکین کی ناراضگی کا بھی سامنا ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ 50 سے زائد پی ٹی آئی ارکان عمران خان کیخلاف کھڑے ہیں جبکہ گزشتہ روز اپوزیشن کے ایک اجلاس میں 22 حکومتی ممبران کی موجودگی کی بھی اطلاعات ہیں۔ پی ٹی آئی جہانگیر ترین اور علیم خان کے دو بڑے ناراض دھڑے بھی اپوزیشن کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں ۔

ترین اور علیم گروپ

جہانگیر ترین گروپ میں تقریباً 30 کے قریب قومی و پنجاب اسمبلی کے ارکان شامل ہیں ۔ ان میں سے زیادہ وہ ارکان ہیں جو انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے کے بعد جہانگیر ترین کی ایماء پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

پی ٹی آئی کا دوسرا بڑا گروپ علیم خان کا ہے جو الیکشن کے بعد پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے سب سے بڑے امیدوار تھے لیکن پی ٹی آئی نے انکی جگہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنادیا گوکہ علیم خان کو پنجاب حکومت میں سینئر وزیر کا عہدہ دیا گیا لیکن وہ بعد میں وزارت سے الگ ہوگئے تھے۔ علیم خان کا دعویٰ ہے کہ لگ بھگ چالیس ایسے ممبران ہیں جو ان کے ساتھ ہیں اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کو تیار ہیں۔

اب حکومت کیسے بچائینگے ؟

قومی اسمبلی میں عددی برتری کے بعد اپوزیشن اتحاد نے حکومت بنانے کیلئے حوالے سے حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ عمران خان کے اکثریت سے محروم ہونے کے بعد ممکنہ وزیراعظم شہبازشریف کو وزیراعظم کے برابر سیکورٹی دی جارہی ہے ۔

دوسری وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد سے اب تک مطمئن ہیں اور ان کے ساتھی وزراء ایک ہی بات پر بضد ہیں کہ عمران خان آخری گیند تک مقابلہ کرینگے اور میدان خالی نہیں چھوڑیں گے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے منحرف پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے حوالے سے عدالت سے بھی رجوع کرلیا لیکن ووٹ سے روکنا ممکن نہیں لیکن یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام ممبران کو اپنے ساتھ ملا کر بھی 172 کے ہندسے تک نہیں پہنچ سکتی ایسے میں وزارت عظمیٰ اور حکومت بچانا کیسے ممکن ہے؟۔