کیا حکومت کیلئے مشکلات کا سبب بننے والے صدر عارف علوی کو عہدے سے ہٹانا ممکن ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Is it possible to remove Arif Alvi as President to form a new government?

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کے سیاسی  ایوانوں میں تاحال کشیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔ نئی حکومت کو قبول کرنے سے انکاری اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر سندھ، گورنر بلوچستان اورگورنر خیبر پختونخوا اپنے عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں تاہم پنجاب کے گورنر اور صدر مملکت تاحال حکومت کیلئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے حکومت صدر مملکت اور گورنر پنجاب کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کی خواہاں ہے۔

وزیراعظم سے حلف
عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد ایوان نے نئے قائد کے طور پر شہبازشریف کا انتخاب کیا تو ان سے حلف لینا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی آئینی ذمہ داری تھی تاہم انہوں نے طبیعت خراب ہونے کا عذر پیش کرکے ان سے حلف لینے سے انکار کردیا اور ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے نئے وزیراعظم سے حلف لیا۔

حکومت کی تشکیل اور صدر کی ذمہ داری
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعدشہبازشریف کی کابینہ کی تشکیل مکمل ہونے کے بعد صدر مملکت کو وفاقی وزراء سے حلف لینا تھا لیکن انہوں نے ایک بار پھر اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے چیئرمین سینیٹ کو ہی وفاقی وزراء سے حلف لینا پڑا۔

ماضی میں صدور کے مخالفین سے حلف
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی کے علاوہ کسی نے بھی مخالف جماعت کے وزیراعظم سے حلف لینے سے انکار نہیں کیا۔ اگر ہم سال 2000 کے بعد کی بات کریں تو پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی سے وزیراعظم کا حلف لیا۔ اس کے بعد آصف علی زرداری نے نوازشریف سے اور ممنون حسین نے عمران خان سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔

عارف علوی کی عہدے پر موجودگی
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے غیر آئینی طور پر اجلاس بلانے میں تاخیری حربے اختیار کئے بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین کی خلاف ورزی کی اور اب عارف علوی بھی عمران خان سے وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے انحراف کررہے ہیں۔

گورنر پنجاب کیخلاف عدالت سے رجوع
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت ختم ہونے کے بعد 3 صوبوں میں گورنر مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ پنجاب میں جہاں مسلم لیگ ن حکومت بنانے والی ہے وہاں تاحال پی ٹی آئی کے گورنر عہدہ پر براجمان ہیں جبکہ ان کو عہدے سے ہٹانے کیلئے سمری صدر مملکت نے مسترد کردی ہے تاہم عہدے پر موجود ہونے کے باوجود عمر سرفراز چیمہ نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازسے حلف لینے سے انکار ی ہیں جس پر ن لیگ نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت کیلئے مشکلات
 قانونی ماہرین  کاکہنا تھا کہ  جب صدر کو وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے کوئی سمری منظوری کے لیے ارسال کی جاتی ہے تو صدر کے آفس کو آئینی طور پر اس پر فیصلے کے لیے 15 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صدر مملکت اس سمری کو از سر نو جائزے کے لیے واپس دوبارہ وزیراعظم یا کابینہ کو بھیج سکتے ہیں۔

ماہرقانون سلمان اکرم راجہ کے مطابق ویسے تو خیال یہی کیا جاتا ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ڈاکخانہ ہے مگر ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔

دوبارہ جائزے میں کم از کم ایک دن تو لگ جاتا ہے اور اگر پھر بھی وزیراعظم اور کابینہ کی سمری وہی ہو تو بھی صدر مزید دس دن تک اس پر سوچ و بچار کر سکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق یوں صدر کسی بھی معاملے کو تقریباً ایک ماہ تک تاخیر کا شکار بنا سکتے ہیں۔

کیا حکومت عارف علوی کو صدر کے عہدہ سے ہٹاسکتی ہے ؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی کو عہدے سے ہٹانا ممکن نہیں ہے کیونکہ صدر کے مواخذے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل ممبران کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اگر نمبر گیم پر نظر دوڑائی جائے تو پھر ایسے میں صدر کو حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں کل 342 نشستیں ہیں جبکہ 100 سینیٹرز ہیں، جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد 26 بنتی ہے۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل 442 کے ارکان میں سے صدر کے مواخذے کے لیے تقریباً 296 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔

اس وقت حکومت کے پاس تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ملا کر بھی قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 197 تک ہی بنتی ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ عارف علوی بطور صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکاری ہیں۔

Related Posts