بابری مسجد تنازعہ کے حل کی گھڑی آگئی۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس کی سماعت چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے مکمل کی۔ سپریم کورٹ میں 40 روز سے جاری بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیاگیا ۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی جس میں سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

بابری مسجد کے انہدام اور بحالی کی تحریک نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ہوا دی، تقسیم ہند کے بعد یہ دوسرا ایسا واقعہ تھا جس نے بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے رشتوں میں گہری خلیج پیدا کی۔

بابری مسجد، رام مندر کا فیصلہ ثالثی سے ہو گا یا ‏عدالت عظمی کے فیصلے سے اس کے بارے میں اس مرحلے پر کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہو گی۔مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب یہ بابری مسجد ایودھیا میں 1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔

یہ تنازع 19ویں صدی میں انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس 1885 میں فیض آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہواتاہم اس وقت کمشنر کی عدالت نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

آزادی کے بعد دسمبر 1949 کی ایک رات بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مبینہ مندر کے مقام پر بھگوان رام کی مورتی رکھ دی گئی جس کے بعد کشیدگی نے جنم لیا اورکشیدگی کے ماحول میں مسجد کوتالا لگا دیا گیا اور نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مقامی مسلمانوں کی جانب سے مسجد میں مورتی رکھے جانے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی اور مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیاجبکہ ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کردیا۔

1980 کے عشرے کے اواخر میں بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہوئی۔چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہزاروں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیااوراس منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر دوبارہ مورتیاں نصب کر دیں گئیں اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا۔

مسلمانوں کی جانب سے سنی وقف بورڈ اورہندوؤں کی جانب سے ایودھیا کا نرموہی اکھاڑہ اور رام جنم بھومی ااس مقدمے کے فریق ہیں جبکہ اس مقدمے کے فیصلے میں 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع زمین تینوں فریقوں میں برابر برابر تقسیم کر دی تھی جس کیخلاف تینوں فریقین نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعے نے بھارت کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے۔اس تحریک سے ہندو قوم پرستی کو ہوا ملی اور اسی کے زور پر بی جے پی ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت سے ابھر کر ملک گیر جماعت بنی، اقتدار میں آئی اور آج بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔

لیکن عدالت اپنا فیصلہ ثبوتوں اور دلیلوں کی بنیاد پر کرے گی۔ عدالت عظمی کا فیصلہ کیا ہو گا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا لیکن عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو گا اس کا بھارتی عوام کے ذہنوں پر بہت گہرا اثر مرتب ہو گا۔

Related Posts