تھرپارکر میں خودکشی کی شرح میں اضافہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کا شمار صوبے کے پُرامن اضلاع میں کیا جاتا تھا لیکن حال ہی میں غیر ملکی خبررساں ادارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق پاکستان کے ضلع تھرپارکر میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے مقامی پولیس نے تھرپارکر سے تین خواتین کی لاش برآمد کی جن کی موت کی وجہ خود کشی بتائی جارہی ہے، تاہم پولیس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔

تھرپارکر کا شمار ملک کے غریب ترین اضلاع میں ہوتا ہے جہاں پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، وہاں کے لوگوں کو نہ تو بہتر خوراک میسر ہے اور نہ ہی طبی سہولیات۔ کوئلے سے مالا مال اِس اضلاع میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے سبب مقامی لوگوں کیلئے ملازمتیں بھی نہیں ہیں۔

وہاں کے لوگوں میں ذہنی صحت کے بحران کا قومی سطح کا مسئلہ بھی ہے جسے ثقافتی اور وسائل کی وجوہات کی بناء پر ٹھیک سے حل نہیں کیا جاسکا اورتھرپارکر جیسی جگہوں پر سہولیات اور طبی پیشہ ور افراد کی کمی کی وجہ سے اسے حل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر میں جن لوگوں نے خودکشی کی ہے اُن میں سے اکثریت ہندو آبادی سے تعلق رکھتی ہے، جو ضلع کی آبادی کا تقریباً 43فیصد ہیں، سال 2020 میں جن لوگوں نے خودکشی کی اُن میں سے 63 فیصد کا تعلق ہندو آبادی سے تھا۔ خودکشی کرنے والے ہندو نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پاس تعلیم، روزگار اور یہاں تک کہ تعلقات کے مواقع بھی کم ہیں۔ تمام متاثرین میں، 70 فیصد 30 سال سے کم عمر کے تھے اور تقریباً نصف فیصد نوعمر تھے۔ ان تشویشناک نمبروں کی وجہ کچھ حد تک سماجی مسائل کی وجہ کو قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ خودکشی کے گرد مذہبی اور ثقافتی ممنوعات کی وجہ سے رپورٹنگ نہیں ہونا ایک مسئلہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ممکنہ حد سے زیادہ رپورٹنگ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، کیونکہ گھریلو تشدد کے واقعات اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کو خودکشی کے طور پر بھی چھپایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی صورت حال ہے جس سے بچا جاسکتا ہے اگر بدسلوکی کے متاثرین کے لیے صرف صحیح خدمات دستیاب ہوں اور عمومی طور پر بہتر پالیسی کے ذریعے سے مسائل کا حل ہو تو ایسے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

Related Posts