عمران خان کی عدالت میں حاضری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان کی زندگی کی کہانی بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے دلچسپ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے قومی کرکٹر کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کیا اور 1992 کا ورلڈ کپ اپنے وطن لانے والی قومی ٹیم کے کپتان بن گئے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتیں اور  ولولہ انگیز قیادت اس وقت بھی عیاں رہی اور وہ تیزی سے پاکستان میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ بن گئے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے انسان دوستی اور سماجی کاموں پر توجہ دی۔ انہوں نے لاہور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی جو ہر سال ہزاروں مریضوں کو کینسر کا مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے میانوالی میں ایک یونیورسٹی نمل نالج سٹی بھی قائم کی جس کا مقصد پسماندہ طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔

عمران خان نے 1996 میں سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے متعدد بار انتخابات میں حصہ لیا لیکن 2018 تک صرف جزوی کامیابی ہی اپنے نام کرسکے اور پھر 2018 میں انہوں نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی اور پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔

ان کی جیت کا جشن بہت سے پاکستانیوں نے منایا جنہوں نے انہیں ایک بہتر مستقبل کی امید کی کرن کے طور پر دیکھا۔ عمران خان نے کرپشن سے نمٹنے، معیشت کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کے لیے نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے تمام پاکستانیوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

تاہم عمران خان کا بطور وزیر اعظم دور تنازعات سے خالی نہیں رہا۔ ان کی حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔ ان کی کچھ پالیسیاں معاشی مسائل کا باعث بنیں جس پر عوام نے تنقید بھی کی۔

مزید برآں، انہیں بدعنوانی اور بدانتظامی کے کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور ان کی حکومت میں کورونا  وبائی مرض سے نمٹنے کیلئے اسمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی پر تنقید کی گئی۔

حال ہی میں عدالت نے عمران خان کو اپنے خلاف الزامات کے جواب میں 28 فروری 2023 کو پیش ہونے کو کہا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ورلڈ کپ لانے والے قومی ہیرو کی حیثیت سے ان کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے اور ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔

تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عمران خان سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور اگر کسی عوامی شخصیت کے خلاف الزامات ہیں تو ان کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔ عدلیہ کا کام ملزم کی حیثیت یا ماضی کی کامیابیوں سے قطع نظر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

آخر میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے عمران خان کا کرکٹر سے وزیر اعظم تک کا سفر متاثر کن ہے، اور ملک کے لیے ان کی  خدمات نمایاں ہیں۔ تاہم وہ الزامات سے تاحال بری نہیں ہوسکے اور یہ عدلیہ پر منحصر ہے کہ وہ ان کی تحقیقات کرے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ بحیثیت قوم ہمیں قانون کی حکمرانی کا احترام اور غیر جانبداری سے کام کرنے والے عدالتی نظام پر اعتماد کرنا چاہیے۔

Related Posts