رمضان میں زکوۃ کیسے نکالیں اور مستحقین کا تعین کیسے ممکن ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رمضان میں زکوۃ کیسے نکالیں اور مستحقین کا تعین کیسے ممکن ہے ؟
رمضان میں زکوۃ کیسے نکالیں اور مستحقین کا تعین کیسے ممکن ہے ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں بلکہ اس ماہ مبارک میں اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ غریب و غرباء کی ہر ممکن مدد کرسکیں۔

اس مہنیے میں عام طور پر مسلمان زکوۃ بھی نکالتے ہیں اگرچہ زکوۃ کی ادائیگی کا براہ راست رمضان المبارک سے کوئی خاص تعلق نہیں کیونکہ زکوۃ کہ ادائیگی اُس وقت کی جاتی ہے جب ممکنہ مال کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوجائے لیکن ہمارے معاشرے میں عام رواج بن چکا ہے کہ زکوۃ رمضان المبارک میں ہی ادا کی جاتی ہے چانچہ آج زکوۃ کے بارے میں جانتے ہیں۔

زکوۃ کا مفہوم کیا ہے؟

زکوۃ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے اور ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے۔ زکوۃ کے لغوی معنیٰ پاکی کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ، ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “نکالنے کو زکوۃ کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زکوۃ نکالنے کا حکم اس لئے دیا ہے تاکہ انسان کے دل میں مال سے محبت نہ پیدا ہو کیونکہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی قسم کی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے زکوۃ نکالنے کا حکم دیا اور اللہ تعالی کے نزدیک زکوۃ دینے والا فلاح پالیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)۔ الشمس ، 9:91

زکوۃ کی فرضیت و اہمیت

زکوۃ اسلام کا ہم ترین فریضہ ہے، اس سے جو انکار کرتا ہے گویا وہ کفر کرتا ہے، ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے جو کہ زکوۃ سے انکار کرتا ہے بالکل ویسے ہی جونماز سے انکار کرتا ہے وہ بھی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

زکوٰۃ اللہ کی عطا کی ہوئی بے حساب نعمتوں کے اعتراف اور اُس کا شکر بجا لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ، اگر تم اللہ کو نیک قرض دو تو وہ اسے تمہارے لیے دگنا کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا قدردان حلم والا ہے۔ (سورئہ التغابن 17)

اس کے مقابلے میں جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اُن کے لئے اللہ کا ارشاد ہے، جو لوگ جمع رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں سو اُن کو خوشخبری سُنا دے عذاب ِ دردناک کی۔(سورئہ توبہ 34)

ان آیات کی رُو سے زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے آخرت کی نعمتوں کے حصول اور عذابِ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مسلمان کو یاد دلاتی ہے کہ جو دولت وہ کماتا ہے وہ حقیقت میں اس کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ پاک کی دی ہوئی امانت ہے۔ یہ احساس اُسے معاشی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور اس کے تمام اعمال کو احکامِ الہیٰ کے تابع کرتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق معاشی معاملات دین کا ایک حصہ ہیں۔ جب انسان دولت جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم پر خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایثار کی قدر کرتا ہے اور اس کے خرچ شدہ مال کو اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور وہ وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا یہ قرض وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا۔

زکوۃ کن لوگوں پر فرض ہے

جو مسلمان عاقل و بالغ، آزاد، ہو، نصاب کے برابر مال رکھتا ہو، مال ضروریات سے زیادہ ہو اور اُس مال پر پورا سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ پر فرض ہے یہاں پر نصاب سے مراد یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہویا دونوں کی مالیت کے برابریا دونوں میں سے ایک کی مالیت کے برابرنقدی ہو یا سامانِ تجارت ہو یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔

نصاب کی مزید تفصیل یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونے پر زکوۃ کا مدار اس وقت ہے کہ جب ملکیت میں صرف سونا ہو، اس کے علاوہ کسی اورشکل میں سے کوئی مال پاس نہ، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتو پھرزکوۃ کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا یعنی اگرکسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہے اوراس کے علاوہ نقدرقم، چاندی یاسامان تجارت وغیرہ بالکل نہ ہوتو اس شخص پرزکوۃ فرض نہیں ہوگی، لیکن ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ ساتھ کسی کے پاس چاندی یا بنیادی ضرورت سے زائد نقد رقم یاسامانِ تجارت موجود ہو توپھراس کے لیے نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہے، لہٰذا اگر اس سونے اور باقی اشیاء کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہو تواس پرزکوۃ فرض ہوگی۔

زکوۃ کو کیسے نکالیں

زکوۃ اثاثہ جات کی مالیت یعنی سونا، چاندی، کرنسی، بینکوں میں جمع شدہ رقم، پرائز بانڈ، مال تجارت فیکٹری میں موجود خام مال ، تیار شدہ مال فیکٹری یا دکان وغیرہ میں، تجارتی پلاٹ، مکان یا فلیٹ ،کرایہ مکانات و دکانات،جنرل سٹور میں سال کے دوران رکھے جانے والے اوسطاََ سامان کی اصل قیمت ،منافع کی رقم اور کاروبار میں قابل شراکت اثاثہ جات کی کل مالیت کا مارکیٹ ریٹ کے حساب سے تخمینہ لگائیں پھر اُس میں سے قابل ادائیگی رقوم الگ کرلیں تو باقی بچنے والی قابل زکوۃ رقم ہوگی اس رقم کو چالیس پر تقسیم کریں جو جواب آئے اسی قدر زکوۃ ادا کردیں۔

زکوۃ کے مستحقین کا تعین کیسے کریں

زکوۃ نکالنے سے پہلے جو بات سب سے زیادہ مشکل لگتی ہے وہ یہ کہ زکوۃ کن لوگوں کو دی جاسکتی ہے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اُن کی زکوۃ مستحقین تک پہنچنے سے محروم نہ رہ جائے۔

اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کے مستحقین کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آٹھ (8) ایسے لوگ بتائے ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ یہ مصارف زکوٰۃ کہلاتے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1) فقراء

2) مساکین

3) عاملین زکوۃ

4) غیر مسلم (ایسے گیر مسلم جو محتاج ہو اور اُن کے دلوں میں اسلام کیلئے رغبت پیدا کرنا مقصود ہو)

5) غلام کی ازادی میں 

6) مقروض 

7) فی سبیل اللہ 

8) مصارف

Related Posts