ڈی ایچ اے کالج کا پرنسپل، جامعہ کراچی میں DF اور پروفیسر کیسے بنا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈی ایچ اے کالج کا پرنسپل، جامعہ کراچی میں DF اور پروفیسر کیسے بنا ؟
ڈی ایچ اے کالج کا پرنسپل، جامعہ کراچی میں DF اور پروفیسر کیسے بنا ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں انتظامی بحران کے بعد مالی بد انتظامی بھی عروج پر پہنچ گئی ہے، اساتذہ، ملازمین کے بعد حکومتی جماعت کی طلباء تنظیم (پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن)کا وفد ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کے خلاف شکایات کا انبار لے کر سیکریٹری بورڈ اینڈ جامعات مراد علی راحموں کے پاس پہنچ گیا، جامعہ کراچی میں مئی 2019ء کے بعد سے مستقل وائس چانسلر اور 2007ء تاحال مستقل رجسٹرار کے بغیر جامعہ کو چلایا جارہا ہے۔

جامعہ کراچی گریڈ 20 کے ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کی نا اہلی کے باعث جامعہ کراچی کا بجٹ برائے 2021 تا 2022 ابھی تک نہیں منظور نہیں کیا جا سکا، آڈٹ اعتراضات کے باوجود پریکیورمنٹ کمیٹی میں ایک تہائی ممبران باہر سے لینے کے بجائے جامعہ کے ہی ممبران بنا کر من پسند کمپنیوں کر نوازاجا رہا ہے، بغیر ٹینڈر کے کوٹیشنوں پر 4200 روپے میں کرسی کی مرمت، 40 لاکھ روپے سے زائد کے کمپیوٹر اور 24 لاکھ روپے کے ایئر کنڈیشن خرید لئے گئے، جامعہ کے اساتذہ کے (provident fund)کے 100 ملین روپے تنخواہ کی مد میں جاری کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا جا چکا ہے، ڈائریکٹر فنانس بغیر رولز کے اپنی تنخواہ بھی (protect) کرا چکے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق جامعہ کراچی کا ابھی تک 2021 تا 2022 کا بجٹ بنانے کے بعد فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کی سفارش کے بعد سینڈیکیٹ سے منظور نہیں کرایا جا سکا، جس کی وجہ سے جامعہ کراچی جولائی 2021 سے اب تک بغیر بجٹ منظوری کے اخراجات کر رہی ہے، وائس چانسلر کی منظوری کو سنڈیکیٹ کی اجازت سے مشروط کر کے رقم خرچ کی جا رہی ہے، جب کہ ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے 2021 میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اجلاس بلایا نہ ہی بجٹ کے معاملات کو سنیڈیکیٹ میں منظوری کے لئے زیر بحث لایا جا سکا، جس کی وجہ سے 6 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کا بجٹ بنایا گیا ہے نہ ہی منظوری کی لئے کوئی تیاری کی گئی ہے۔ جب کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے اکتوبر 2020 میں متعلقہ پرفامہ جامعہ کو موصول ہو گیا تھا جس پر دسمبر و جنوری میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اجلاس منعقد کرکے بجٹ تیار کرنا تھا۔

جامعہ کراچی کی جانب سے اچھی کارکردگی کے تحت ٹینڈر کے ذریعے شفاف خریداریوں کے بجائے کوٹیشنوں کے ذریعے من پسند ٹھیکیداروں سے چیزیں خریدی اور کمیشن بنایا جا رہا ہے، جبکہ ٹینڈر اور کوٹیشن کے لئے جامعہ کے کوڈ کے مطابق ایک پریکیورمنٹ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس کے خلاف ضابطہ تمام ممبران جامعہ کراچی سے ہی ہیں، جب کہ ان میں ایک تہائی یعنی دو ممبران کا جامعہ سے باہر کا ہونا ضروری تھا۔

کمیٹی کے ممبران میں پرچیز آفیسر ارشد (چیئرمین کمیٹی)، چیف اکاؤنٹنٹ قمر اقبال اور آڈیٹر عمران خان کے علاوہ سینٹر آف ایکسی لینس آف میرین بیالوجی سے مبرور خان اور پاکستان اسٹڈی سینٹر سے عابد احمد خان سمیت پانچ ممبران شامل ہیں۔ جن میں موخرالذکر دونوں ممبران کا تعلق جامعہ سے ہی ہے۔ جبکہ ان کو باہر کے ممبران کے کوٹے پر رکھا گیا ہے۔ اس کمیٹی کے تحت ڈائریکٹر فنانس کی جانب سے گزشتہ چند برسوں کے دوران بغیر ٹینڈر کے کروڑوں روپے کے اخراجات کوٹیشن کے نام پر خرچ کر دیئے گئے ہیں جب کہ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کی جانب سے اس کمیٹی پر بھی اعتراض لگایا جا چکا ہے،جس کا ابھی تک تسلی بخش جواب جمع نہیں کرایا جا سکا۔

ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے وائس چانسلر کو گمراہ کن معلومات دیکر 180ملین روپے بینک الفلاح سے نکا ل کر یونائیٹڈ بینک میں ٹرانسفر کردیئے تھے، جس کی اجازت بھی جعل سازی سے لی گئی تھی، 14جولائی کو انہوں نے ایک سمر ی جاری کی جس میں 15جولائی 2021کو وائس چانسلر سے سمری پر دستخط بھی کرائے تھے، جس میں لکھا تھا کہ حکومت سندھ نے 6جولائی کو ایک لیٹر جاری کیا ہے کہ یکم اگست سے قبل تمام ملازمین کو تنخواہیں جاری کی جائیں جس کی وجہ سے جامعہ کراچی تنخواہ اور پینشن کی رقم متعلقہ اکاؤنٹ میں جاری کرنا چاہتی ہے۔

اس سمری میں وائس چانسلر کو گمراہ کن معلومات دیتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ مذکوہ رقم بینک الفلاح اسلامک سے یونائیٹڈ بینک میں ٹرانسفر کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ تنخواہ اور پنشن جاری کی جائے،مزید یہ بھی لکھا ہے کہ بینک الفلاح میں موجود یہ رقم یونیورسٹی کے نارمل فنڈ کی مد میں ہیں،اس میں انہوں نے (provident fund)کا ذکر نہیں کیا ہے،جس کی وجہ سے بینک الفلاح اسلامک کے اکاؤنٹ نمبر 5001349985 برانچ کوڈ 574300 سے 180 ملین روپے نکال کر یونائیٹڈ بینک کے اکاؤنٹ نمبر 10969 برانچ کوڈ 1146 میں ڈال کرتنخواہیں اور پنشن اداکر دی گئی۔

حیرت انگیز طو ر پر جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر فنانس نے اساتذہ کے (provident fund)کی مختص رقم میں سے 100 ملین روپے کو غیر متعلقہ مد میں جاری کر کے تنخواہیں ادا کر دی تھیں، جب کہ جامعہ میں طلبہ کی فیسوں کا ریکارڈ بھی شفاف نہیں ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کی فیسوں کی مد میں بڑے پیمانے پر غبن کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ ڈائریکٹر فنانس تنخواہیں آڈٹ میں ٹوٹل کے حساب سے ظاہر کرتے ہیں جب کہ تنخواہیں بریک اپ میں ظاہر کی جاتی ہیں تاکہ کس کو کس ماہ کتنی تنخواہ ملی اس کا حساب موجود ہو۔

معلوم رہے کہ ٹینڈر جاری کرنے کے ساتھ ہی متعدد کمپنیوں کی جانب سے بولی دی جاتی ہے جبکہ کوٹیشن میں من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے، جس میں کروڑوں روپے کے کام 3 لاکھ روپے کی کوٹیشن کے اندر اندر لا کر نمٹائے جاتے ہیں، کوٹیشن نوٹس بورڈ پر لگائی گئی ہے نہ ہی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر جامعہ کراچی کی کسی بھی کام کے لئے جب بھی کوٹیشنیں منگوائی گئی ہیں ان میں 90 فیصد ایک جیسی ہی کمپنیاں اپنی کوٹیشن دیتی رہی ہیں، ایس ای سی پی کے ریکارڈ کے مطابق کوٹیشن میں آنے والی 70 فیصد کمپنیوں کے مالکان ایک ہی ہوتے ہیں،کوٹیشن دینے والوں میں بعض ٹھیکیدار ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں جو کسی نئے ٹھیکدار کو جامعہ میں آنے ہی نہیں دیتے۔

کس کمپنی سے کیا منگوایا گیااور کتنی رقم ادا کی گئی؟

ریکارڈ کے مطابق کوٹیشن کے ذریعے بایوکیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے لئے سپیکٹرو فوٹرمیٹر کی خریداری ایم ایس مغل ٹریڈرز سے 2لاکھ 98ہزار میں کی گئی،دا ورلڈر وائیڈ سائنٹفک سے 57600 کے حساب سے کیمیکل، فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لئے کیمیکل کی خریداری 73 ہزار 663 روپے میں عشرت انٹرپرائیزر سے کی گئی، اسی ڈپارٹمنٹ کے لئے کیمیکل اور گلاس ویئر کی2 لاکھ 10 ہزار 302 روپے میں خریداری کی گئی،اپلائیڈ کیمسٹری اینڈ کیمیکل ٹیکنالوجی کے لیے کیمیکل کی خریداری بھی اسی کمپنی سے 2 لاکھ 35 ہزار 650 روپے میں کی گئی ہے، مائیکرو بیالوجی کے لئے کیمیکل کی خریداری ایک لاکھ 90 ہزار 900 روپے میں اسی کمپنی سے کی گئی ہے، اسی کمپنی سے اسی ڈپارٹمنٹ کے لئے ایک لاکھ 11 ہزار 150 روپے کے حساب سے کیمیکل خریدا گیا،کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے لئے کیمیکل کی خریداری بھی اسی کمپنی سے ایک لاکھ 80 ہزار 812 روپے میں کی گئی۔

فنارہ فائنٹفک کمپنی سے فوڈ سائنس ڈپارٹمنٹ کے لئے آلات کی خریداری 2 لاکھ 36 ہزار 912 روپے میں کی گئی، کیمپس انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے لئے مغل کمپیوٹرز سے 95 ہزار روپے کے حساب سے آئی تھری کمپویٹر لئے گئے، فارما کوگنوسی ڈپارٹمنٹ کے لئے کیمیکل کے استعمال کے آلات نیو لیبسکو انٹرپرائزر سے 2 لاکھ 70 ہزار روپے میں خریدے گئے، اسی کمپنی سے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے لئے کیمیکل 2 لاکھ 53 ہزار 375 روپے میں خریدا گیا، ایمکو کمپنی کو 2021 میں کوٹیشنوں کے ذریعے منگوائی گئی چیزوں کی مد میں کل 42 لاکھ 75 ہزار 63 روپے بل ادا کئے ہیں۔یوں 2021 میں مغل کمپیوٹرز کو 48 لاکھ 29 روپے کی، اسرار بلڈرز کو 2021 میں 30 لاکھ 53 ہزار 644 روپے کی اور عسکری انٹرپرائزر کو 2021 میں 63 لاکھ 32 ہزار 581 روپے کی بجٹ شیٹ جاری کی گئی۔

طارق کلیم کون ہیں؟

طار ق کلیم 2012 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ڈیفنس اتھارٹی کالج آف بزنس (ڈی اے سی بی)میں پرنسپل تعینات تھے، جہاں سے وہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں ڈائریکٹر فنانس تعینات ہوئے، جہاں انہوں نے مدت مکمل کئے بغیر ہی 2014میں استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد وہ2015میں جامعہ کراچی میں تعینات ہوئے، جس کے بعدجامعہ کرا چی میں لیو انکیشمنٹ کے لئے اساتذہ کا احتجاج ہوا، طارق کلیم نے لیو انکیشمنٹ دینے سے انکار کیا، جس کے بعد اساتذہ و ملازمین کے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کیلئے طارق کلیم کو 28 فروری 2017کوجبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

اس دوران طار ق کلیم نے انسٹیٹیوٹ آف چارٹر اکاونٹنٹ آف پاکستان (ICAP) میں نوکری حاصل کی جس پر جامعہ کراچی نے اسے نوکری سے نکال دیا تھا، جہاں طارق کریم نے عدالت سے رجوع کیا، سندھ حکومت نے عدالت میں جواب جمع کرایا کہ طارق کریم نے انسٹیٹیوٹ آف چارٹر اکاؤنٹنٹ آف پاکستان (ICAP) میں نوکری حاصل کر لی ہے اس لئے جامعہ نے ان کی نوکری ختم کر دی ہے، جس پر عدالت نے سندھ حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

اس دوران طار ق کریم کو جامعہ کراچی کی جانب سے نوٹس دیئے گئے کہ وہ گاڑی، پیٹرول بک جمع کرائیں، جس کے باوجود انہوں نے کوئی بھی چیز واپس نہیں کی، بعد ازاں جامعہ کراچی کی جانب سے گاڑی نمبر ٹیوٹا GL-7612 بمع پیٹرول بک لے جانے کے خلاف مبینہ ٹاؤن تھانے میں مقدمہ 252/18 درج کرایا گیاتھا، جہاں سے ملیر کورٹ کے ذریعے گاڑی ریکور کی گئی تھی جب کہ پیٹرول اور لیپ ٹاپ واپس نہیں مل سکا تھا۔

طار ق کریم نے جامعہ کراچی سے نوکری چھوڑنے کے بعد انسٹیٹیوٹ آف چارٹر اکاؤنٹنٹ آف پاکستان (ICAP) میں نوکری حاصل کی، وہاں پر بھی شفاف نوکری کرنے کے بجائے نوکری ختم ہوئی اور خود ادارے کیخلاف مقدمہ نمبر 1639/2019 درج کرا دیا تھا، اس سے قبل طارق کریم ایسا ہی حال اپنے سابقہ ادارے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ساتھ بھی کر چکے ہیں،طار ق کریم نے اب بھی ڈی ایچ اے کی سرکاری گاڑی GA-7268 بلینو اپنے پاس رکھی ہوئی ہے جب کہ طار ق کریم نے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی نوکری کیخلاف عدالت سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

اس دوران محکمہ بورڈ اینڈ جامعات کی جانب سے جاری کردہ اشتہار کے ذریعے اپلائی کرنے کے بعد طار ق کلیم کی ڈائریکٹر فنانس گریڈ 20 پر جامعہ کراچی میں 10 اکتوبر 2019 کو تین سال کے لئے معاہداتی تعیناتی ہو گئی تھی۔تعیناتی کے بعد طارق کلیم نے خلاف ضابطہ 4 چار لاکھ روپے کے 2 میڈیکل ایڈوانس لے لئے، جو خود جامعہ کے کوڈ کے خلاف ہے۔

طارق کلیم نے جب 28 فروری 2017 کو جامعہ کراچی چھوڑا تب ان کی بیسک تنخواہ ایک لاکھ 9 ہزار 910 روپے، بشمول پرسنل پے 7500 روپے تھی، واضح رہے کہ گریڈ 20 کی پے اسکیل کے آخری اسٹیج کے بعد پرسنل پے دی جاتی ہے جس کی کم از کم مدت 14 سال ہے۔ جب کہ طارق کلیم کی نوکری کو تین برس پورے ہوئے بغیر ہی پرسنل پے دینی شروع کر دی گئی تھی، دوبارہ تعیناتی کے بعد خلاف ضابطہ سروس گیپ کے باوجود طارق کلیم نے 3 مئی 2021 کو رجسٹرار عبدالوحید کے آفس آرڈر نمبر Estt.N.T.I/2021 کے ذریعے اپنی تنخواہ میں اضافہ اورپے پروٹیکٹ کرائی جو معاہداتی ملازمت کے رولز کے خلاف ہے، تاکہ ملازم بعد ازاں پنشن یا گریجویٹی کلیم نہ کر سکے۔

کون کتنا پٹرول اور Contingencyلیتا ہے؟

جامعہ کراچی میں وائس چانسلرکو 2019 تک ماہانہ200 لیٹر، رجسٹرا راور ڈائریکٹر فنانس 150لیٹر پٹرول کی اجازت تھی، اکتوبر 2019میں طارق کلیم کی تعیناتی کے ساتھ ہی جامعہ کراچی پر مزید بوجھ بڑھاتے ہوئے 3نئی گاڑیاں خریدی گئیں، جن میں وائس چانسلر کے لئے سوک GSF-062 اور رجسٹرار کیلئے GSF-064 کے علاوہ ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے اپنے لئے GSF-063خریدیں، جس کے بعد انہوں نے اپنا پٹرول 150لیٹر سے بڑھا کر 300لیٹر کرادیا،جس کے ساتھ ہی وی سی اور رجسٹرار کا کوٹا بڑھا دیا گیا۔

اکتوبر 2019 تک وائس چانسلر آفس کی Contingency کی رقم 40 ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی تھی، جب کہ ڈائریکٹر فنانس آفس کی Contingency کو 25 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے ماہانہ کر دیا گیا تھا، جو جامعہ کی تاریخ میں سب سے زیاد ہ رقم ہے۔ جامعہ کے وائس چانسلر اور رجسٹرار آفس کی Contingencyکی رقم مکمل خرچ نہیں ہوتی اور وائس چانسلر ماہانہ 75 سے 80 لیٹر پٹرول استعمال کرتے ہیں جب کہ طارق کلیم 300 لیٹر سے زائد استعمال کرتے ہیں، جب کہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق طارق کلیم ہفتہ میں اکثر غیر حاضر بھی رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: محنت کشوں کے ادارے EOBI میں مستقل چیئرمین کا تقرر کھیل بن گیا؟

طارق کلیم کو نوازنے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جامعہ کے ڈپارٹمنٹ بزنس اسکول میں خود کو وزٹنگ فیکلٹی میں پروفیسر بھی تعینات کرا رکھا ہے جہاں وہ 20 گریڈ کے ہونے کے باوجود گریڈ 21 کا وظیفہ لے رہے ہیں، جامعہ کراچی میں اساتذہ کے بل رکے ہوئے ہیں جب کہ خود ڈائریکٹر فنانس کا انفرادی بل باقاعدہ سے ادا ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر طارق کلیم سے ان کا موقف لینے کے لئے ہم نے متعدد بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں سوالات بھی بھیجے، مگر انہوں نے کال ریسیو نہیں کی نہ ہی ہمارے سوالات کا جواب دیا، ان کا موقف معلوم ہونے پر شائع کردیا جائے گا۔

Related Posts