پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کیسی ہونی چاہئے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ نئے کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی ٹیم نے افغانستان سے تین ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچز کھیلے جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا ہوا، کیونکہ ہار ہار ہوتی ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم اچھا کھیلی، لیکن ہم اپنے نئے لڑکوں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔

اگر بولنگ کی بات کی جائے تو احسان اللہ نے شارجہ کی مری ہوئی وکٹوں پر تیز بولنگ کرکے افغان بلے بازوں کو خوب پریشان کیا، اس کے ساتھ ساتھ زمان خان نے بھی اچھی بولنگ کا مظاہرہ کیا، وہی پر ساتھ ساتھ نوجوان بلے باز صائم ایوب نے بھی اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ساتھ عماد وسیم بھی اچھی فارم میں نظر آئے۔

اب بات یہ ہے کہ آپ اپنی نئی ٹیم سے شارجہ جیسی مری ہوئی وکٹس پر اُس قسم کی کارکردگی کی توقع لگائیں جوکہ وہ پاکستان میں پی ایس ایل کی بیٹنگ وکٹ رن بنا رہے تھے۔ یہ دانش مندانہ بات نہیں ہے، اب چونکہ نیوزی لینڈ پاکستان کا رخ کررہی ہے اور 14اپریل سے پہلے تین ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میں ہوں گے اور باقی کے دو ٹی ٹوئنٹی میچز راولپنڈی کے کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے اور اس کے ساتھ پانچ ODIمیچز الگ ہیں۔

ان پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز میں یہی ٹیم کھیلنی چاہئے، جو آپ نے افغانستان کے خلاف بھیجی تھی، کیونکہ اس نئی اور نوجوان ٹیم میں سارے پی ایس ایل کے پر فارمر ہیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ پی ایس ایل پاکستان کے انہی میدانوں میں کھیلا گیا تھا اور ان نوجوانوں کو ایک اور موقع ملنا چاہئے تاکہ جو لڑکے افغانستان کے خلاف تین میچز کی سیریز میں کارکردگی نہیں دکھا سکے، وہ اپنی کارکردگی کا لوہا منوا سکیں۔

اعظم خان جن کے وزن کی وجہ سے شائقین نے ان پر بڑی تنقید کی، مگر آپ ایک دو میچز سے کسی کو جج نہیں کرسکتے، ان پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز میں اعظم خان کو بھرپور موقع ملنا چاہئے، پھر اس کے بعد آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ نوجوان لڑکے انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے قابل ہیں کہ نہیں اور باقی رہی ہماری سینئر کھلاڑیوں کی بات جن میں بابر اعظم، محمد رضوان، فخر زمان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور دیگر شامل ہیں انہیں صرف ون ڈے میچز کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

کیونکہ آگے چل کر رواں سال 5اکتوبر 2023 سے آئی سی سی او ڈی آئی ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے، جس کے لئے پاکستان کو ابھی سے ہی تیاری کرنی چاہئے اور سینئر کھلاڑیوں کو صرف ون ڈے میچز کی طرف توجہ دینی چاہئے، کیونکہ دنیا بھر کی ٹیمیں ورلڈ کپ کی تیاری ایسے ہی کرتی ہیں جو ان کے سینئر ز او ڈی آئی پلیئرز ہوتے ہیں انہیں صرف ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ تک ہی محدود رکھا جاتا ہے، کیونکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بہت زیادہ فاسٹ ہے اور اس میں انجری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

جہاں تک بات ہے ٹی ٹوئنٹی کی تو آپ کی نئی ٹیم بھی نیوزی لینڈ کو ہوم گراؤنڈ میں ہرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور آپ کو اپنے نئے لڑکوں کو زیادہ چانسز دینے چاہئیں، تاکہ ان کے تجربے میں زیادہ اضافہ ہو۔

جب تک آپ اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیں گے تو آپ کے پاس اچھے کھلاڑیوں کی کمی ہوگی جوکہ ہم نے پچھلے سال کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دیکھا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی فائنل میں زخمی ہوئے تو اسی دوران پاکستان کے ہاتھ سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جاتا ہوا نظر آیا کیونکہ اُس ورلڈ کپ میں شاہین شاہ آفریدی کی فٹنس اتنی خاص نہیں تھی اور شاہین شاہ آفریدی فائنل میچ میں ایسے کھیل رہے تھے کہ جیسے انہیں زبردستی کھلایا گیا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی جگہ اگر کوئی اچھا فاسٹ بولر یعنی احسان اللہ کی طرح کا ہو تا تو شاید 2022کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی ہمارے پاس ہوتا۔

Related Posts