بھارت میں مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین کو کیسے پایا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

(رائے ریاض حسین کی آپ بیتی ”رائے عامہ “کے حوالے سے پچھلا بلاگ بھی لکھا تھا، رائے صاحب کو چار پاکستانی وزرااعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، ان کا تعلق منسٹری آف انفارمیشن سے تھا۔ وہ تین ممالک بھارت، سری لنکا، جاپان میں پاکستانی سفارت خانہ میں پریس اور میڈیا کے حوالے سے ذمہ داری نبھاتے رہے ، اپنی کتاب میں انہوں نے بھارت کے حوالے سے بہت دلچسپ مشاہدات شیئر کئے ہیں۔اسے قلم فاﺅنڈیشن لاہور نے شائع کیا ہے۔ )

”ہم ایک ہیں “کی رَٹ

رائے ریاض حسین کہتے ہیں کہ اپنے کیئریر کی سب سے چیلنجنگ پوسٹنگ پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی کی تھی۔ لکھتے ہیں،”بھارت میں قیام کے دوران یہ محسوس کیا کہ بھارتی انفرادی طور پر پاکستانیوں سے بہت محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں، مگر ایک بات جو وہ چھوٹتے ہی کرتے ہیں، اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی۔ ہر بھارتی باشندہ ملاقات کے پانچ منٹ بعد ہی کہے گا ، ”صاحب ، کیا ضرورت تھی علیحدہ دیش بنانے کی ؟ ہم تو ایک ہیں۔“

”چند دنوں میں احساس ہوا کہ بھارت کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کا اس پر اتفاق (Consensus)ہے کہ پاکستان کا قیام غلط ہوا ہے۔ دہلی میں اگر آپ مونگ پھلی خریدنے کے لئے کسی ریڑھی پر کھڑے ہوجائیں تو ہمارے قد کاٹھ ، رنگت اور لباس سے ریڑھی والا فوراً پوچھے گا کہ صاحب کہاں سے آئے ہیں؟ آپ جواب میں پاکستان کا کہیں تو اس کا فوری ری ایکشن ہوگا،”صاحب کیا ضرورت تھی علیحدہ دیش بنانے کی؟“

”یہی بات جب میری انڈیا کے صدر عبدالکلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی کی۔ تعجب ہے کہ ستر سال گزر جانے کے باوجود بھارتیوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بڑے بڑے دانشور اس امید میں ہیں کہ بہت جلد پاکستان بھارت سے آن ملے گا یا کم از کم اکنامک یونین ضرور بنائے گا۔“

قیام بھارت نے قائداعظم کا مزید مداح بنا دیا

”بھارت میں کچھ دن قیام کے بعد ہی میں پاکستان کے قیام کی حقانیت پر پریقین ہوگیا اور اللہ سے دعا کرتا کہ وہ قائداعظم ؒ کے درجات بلند فرمائیں، جنہوں نے ہمیں علیحدہ وطن دیا اور ایسی ہوشیار قوم سے نجات دلائی جو ہمیں اب تک کھاپی گئے ہوتے جیسے وہ دوسری اقلیتیوں کو ہڑپ کر گئے ہیں، سوائے سکھوں کے۔

”ہم ایک ہیں “ کے فقرے پر شروع میں بہت غصہ آتا، پھر میں نے اس کا مناسب جواب دینا شروع کر دیا۔ ہر بندے کے مطابق، جہاں مناسب آدمی سامنے ہوتا وہاں مناسب الفاظ میں اور کہیں کہیں منہ پھٹ انداز میں بھی۔ ٹائمز آف انڈیا کا ایک کارٹونسٹ میرے پاس پاکستان کے ویزے کے لئے آتا رہا۔ میں نے اس کا کیس فوری پاکستان بھجواد یا، مگر دفتری معاملات میں کچھ دن لگ گئے۔ ادھر وہ جب بھی آتا یہی راگ الاپتا،” ہم تو ایک ہیں، یہ مصنوعی دیواریں بلاوجہ کھڑی کر دی گئی ہیں،ہم ایک ہیں تو پابندیاں کیوں ؟ “ایک بار میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو اسے نان ڈپلومیٹک الفاظ میں سخت جواب دینا پڑا، تب وہ خاموش ہوا۔

”اس سے ملتا جلتا واقعہ ایک سیمینار میں پیش آیا۔ میرے پاس ایک خاتو ن بیٹھی تھیں جن کا کشمیری پنڈت گھرانے سے تعلق تھا۔ کشمیری پنڈت بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد ہی خاتون نے حملہ کر دیا،” ہم تو ایک تھے بھلا کیا ضرورت ہے مصنوعی سرحدوں کی؟“میں نے اسے سمجھانے کی خاصی کوشش کی، مگر وہ بار بار وہی بات کرتی رہیں۔ آخر میں نے کہا، آپ جیسی خوبصورت خاتون میں نے دہلی میں تو ایک بھی نہیں دیکھی ، تو آپ کیسے کہتی ہیں کہ ہم ایک ہیں ؟ اس حملے کے بعد وہ خاتون جھینپ کر خاموش ہوگئیں۔ “

مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کاز سے ”وابستگی “

وہاں میرے قیام کے دوران ایک بار معلوم ہوا کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دہلی آئے ہوئے ہیں۔ میں نے موقعہ کو مناسب سمجھا اوردہلی میں دیوبند کے مرکز پہنچ گیا۔ تھوڑی کوشش کے بعد مولانا مرغوب الرحمن (مدرسہ دیوبند کے اس وقت کے سربراہ )کے دفتر میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے علیک سلیک کے بعد کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر بڑے زور شور سے کرنا شروع کر دیا۔ مختلف مظالم کی تفصیل بیان کی۔ انہی دنوں شہید ہونے والے نوجوان کاقصہ بیان کیا جسے پاکستان دہشت گرد کہہ کر شہید کر دیا گیا تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے کراچی کے کسی مدرسہ سے جوڑ دیا گیا، مگر بعد میں کسی بھارتی اخبار نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ وہ لڑکا تو کبھی ملک سے باہر گیا ہی نہیں ۔

میری اس پرجوش تقریر کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میں مولانا فضل الرحمن اورمولانا مرغوب الرحمن سے مخاطب نہیں ہوں بلکہ کسی دیوار سے ٹکریں مار رہا ہوں۔ میری حیرانی افسردگی میں بدل گئی جب دونوں مولویوں نے جواب میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی کشمیریوں کے دکھ درد سے مکمل لاتعلقی میرے اندر ایک ہیجان برپا کر گئی۔ میں حد درجہ مایوس اور افسردہ ہو کر دیوبند کے دفتر سے واپس آیا ۔ مجھ پر کانگریسی ملاﺅں کی حقیقت کھل چکی تھی ۔ اگلے دن مولانا فضل الرحمن ہائی کمیشن آئے ۔ میں نے وہاں بھی ظلم کی داستان کو دہرایا مگر مولانا وہاں بھی لاتعلق رہے۔ میرے اس دکھ کا مداوا آج تک نہیں ہوسکا۔

الطاف حسین کی بھارت میں آمد

بھارت میں پوسٹنگ کے دوران جو افسوسناک واقعات پیش آئے ان میں سے ایک تاج ہوٹل دہلی میں ایک بھارتی اخبار کا سیمینار بھی شامل ہے، جس میں دنیا بھر سے چیدہ چیدہ رہنما بلائے گئے تھے۔ برطانیہ سے سابق وزیراعظم جان میجر، اردن سے ملکہ نور اور پاکستان سے عمران خان شامل تھے، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی اس میں شریک ہوئے ۔ سیمینار سے چند دن پہلے پاکستانی سفارت خانے کے لوگ حیران پریشان رہ گئے جب دیکھا کہ ائیرپورٹ سے آنے والی سٹرک پر الطاف حسین کی بڑی بڑی تصویریں لگی تھیں۔ کسی پاکستانی کی بھارت میں اس طرح کی پزیرائی غالباً پہلی اور آخری بار کی گئی ۔

میں نے اس معاملے پر پریس کلب آف انڈیا میں اپنے دوست صحافیوںکو چھیڑا تو انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا کہ آپ جانتے ہی ہیں، بھارت میں کون سی طاقت ایسا کر سکتی ہے؟ ان کا اشارہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب تھا۔

الطاف حسین کی زہر میں بجھی تقریر

سیمینار والے دن ہم منتظر تھے کہ الطاف حسین کیا کہتے ہیں۔ ان سے پہلے عمران خان سٹیج پر آئے اور بہت اچھی تقریر کی ۔ جب الطاف حسین سٹیج پر آئے تو ان کے الفاظ سن کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاﺅں۔ الطاف حسین نے کہا، ”میں جب دہلی ائیرپورٹ پر اتر تومیں نے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھا تو مجھے سب کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ “اس کے بعد الطاف حسین نے ایک پرچی نکالی جو غالباً اس کے میزبانوں نے اسے دی تھی، انگریزی میں اس نے پڑھا کہ پاکستان کی تخلیق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھیCreation of Pakistan was the biggest blunder of the History.

الطاف حسین نے اس کے بعد اردو میں کہا ،” ہماری ایم کیو ایم کی حالت تو قیام پاکستان کے بعد وہ ہے کہ نہ خدا ملا نہ وصال صنم، ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ دہلی والوہمیں پاکستان میںمہاجر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اب اگر ہمیں یہ طعنہ دیا گیا تو ہم آپ سے پناہ مانگیں گے ، بولو پناہ دو گے؟“ہال میں سے جواب نہ آیا تو پھر پوچھا، دہلی والو ہمیں پناہ دو گے ۔ پھر بھی جواب نہ آیا تو تیسری بار پوچھا، دہلی والو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں واپس بھارت میں پناہ دو گے؟اس بار بھی جواب نہیں آیا تو الطاف حسین نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور شرمندگی کے عالم میں کہا،”شائد میں نے کوئی غلط سوال کر دیا ہے؟“الطاف حسین کی لایعنی باتیں اس کے بعد بھی جاری رہیں۔

ابھی ہم سفارت خانے والے اس” تقریری حملے “سے سنبھل نہیں سکے تھے کہ پاکستان سے جنرل پرویز مشرف کا فون پاکستان کے ہائی کمشنر عزیز احمد خان کو موصول ہوا ، جس میں حکم دیا گیا کہ ایم کیو ایم کے وفد کی خصوصی آﺅبھگت کی جائے۔ یوں سفیر صاحب نے فوراً وفد کے اعزاز میں رات کے کھانے کا انتظام کیا، جس میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے قائدین دو گھنٹے بعد تشریف لائے۔

جب عمران خان نے مجھے بیگ اٹھوایا

اس کانفرنس سے اگلے دن میں ائیرپورٹ پر کسی مہمان کو لینے کے لئے گیا، جب میں لاﺅنج میں داخل ہو رہا تھا تو نظر آیا کہ عمران خان بھی ٹیکسی سے اتر کر لاﺅنج کی جانب آ رہے ہیں ۔ سیمینار کے دوران ان سے اچھی گپ شپ اور علیک سلیک ہوچکی تھی۔ میں ان سے ملا اور رسماً کہا کہ اپنا بیگ مجھے دے دیں۔ عمران خان نے جھٹ اپنا بیگ مجھے پکڑا دیا۔ یہ دیکھ کرمجھے خیال آیا کہ کئی بار میں نے وزیراعظم نواز شریف یا وزیراعظم ظفراللہ جمالی سے فائلیں یا کوئی اور چیز پکڑنے کی آفر کی تو انہوںنے فوری انکار کر دیا اور اس طرح اپنا سامان کبھی نہیں پکڑایا۔ اب میرا یہ حال تھا کہ اتنا بھاری بیگ اٹھا کر میں عمران خان کے ساتھ بمشکل چل رہا ہوں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ پی آئی اے کے ایک پورٹر نے مجھے دیکھ لیا اور وہ بھاگ کر میری طرف آیا اور بیگ لے لیا۔ اللہ نے عزت رکھ لی ورنہ عمران خان نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔

تامل ٹائیگر کا ایم کیو ایم کے بارے میں انکشاف
1994 سے 1997تک کا دور جب میں سری لنکا میں پاکستانی سفارت خانہ میں تعینات تھا، تب تامل علیحدگی پسندوں کی سری لنکا کی

فوج سے شدید لڑائی جاری تھی۔ میں نے تامل جذبات اور تاثرات جاننے کے لئے ایک دو تامل جرنلسٹ دوست بنا رکھے تھے جن سے اکثر کھانے وغیرہ پر ملاقات رہتی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک باقاعدہ تامل ٹائیگر عسکریت پسند ہے ۔ جب اس سے میری بے تکلفی ہوگئی تو اس نے بتایا کہ اس کی گوریلا ٹریننگ بھارت میں ہوئی ہے۔ ایک دن اس نے مجھ سے یہ سیکرٹ بھی شیئر کیا ،” جب ہم انڈیا میں ٹریننگ لے رہے تھے تو آپ کے ایم کیو ایم کے لوگ بھی وہاں ٹریننگ لے رہے تھے۔ “یہ ایک ایسا راز تھا جو ایک غیر ملکی نے جسے ہمارے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، نہایت ایمانداری سے بتایا اور میرا یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

Related Posts