حضرت رابعہ العدویہ اور عشقِ الٰہی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

روحانیت اور قربتِ خداوندی کی چلتی پھرتی زندہ مثال اور ولیۂ کامل حضرت رابعہ العدویہ رحمۃ اللہ علیہا کی ساری زندگی خدا کے بندوں کو اس کے راستے کی طرف دعوت دیتی نظر آتی ہے۔ بصرہ سے تعلق رکھنے والی حضرت رابعہ کو سخت حالاتِ زندگی اور اسلام کی پہلی ولیۂ کامل کی حیثیت سے تاریخِ اسلام میں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔

تاریخِ اسلامی کے اعتبار سے حضرت رابعہ العدویہ جنہیں عرفِ عام میں حضرت رابعہ بصری بھی کہا جاتا ہے، 714 اور 718 سن عیسوی کے درمیان عراق کے شہر بصرہ میں قبیلۂ قیس میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی پرورش ایک غریب گھرانے میں ہوئی اور بچپن میں ہی والدین سے محروم ہوگئیں۔ بعد ازاں ایک اجنبی نے ایک کمسن یتیم بچی جان کر آپ کو اغواء کر کے کسی کو فروخت کردیا جس سے آپ کا غلامی کا دور شروع ہوا۔

اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے حضرت رابعہ رحمۃ اللہ علیہا تمام دن روزہ رکھتیں اور ساری رات عبادت میں گزار دیا کرتیں۔ ایک رات آپ کا آقا نیند سے جاگ گیا جس نے اپنی آرام گاہ کی کھڑکی سے حضرت رابعہ بصری کو یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا دل تیرے احکامات پر چلنے کیلئے مچلتا ہے اور میری آنکھوں کی روشنی تیری عبادت میں بسی ہوئی ہے۔ اگر مجھے اختیار دیا جاتا تو تیری عبادت سے ایک لمحہ بھی دور نہ ہوتی لیکن تو نے مجھے اپنی ہی مخلوق کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔

خدا کے خوف نے آپ کے آقا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب اس شخص نے حضرت رابعہ بصری کی یہ دُعا سنی اور آپ کے اردگر نور کا ہالہ بنا ہوا محسوس کیا جس کی روشنی سے پورا کمرہ منور ہوچکا تھا تو اس نے آپ کو بلایا اور صبح سویرے ہی غلامی سے آزاد کردیا۔

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کے دُنیائے فانی سے پردہ فرما جانے کے بعد عالمِ اسلام کے مایہ ناز عالمِ دین و فقیہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے ارشادات اور روحانی شاعری سے پردہ اٹھایا۔ ایک شعر کے مطابق جب حضرت رابعہ بصری سے جنت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے ہم نوا اور اس کے بعد گھر۔

یہاں ہم نوا سے مراد اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات ہے جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا جنت کی محبت کی بجائے عشقِ الٰہی سے سرشار تھیں۔ آپ کا بنیادی مقصدِحیات اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور زندگی بھر اللہ کی عبادت تھا تاکہ وہ راضی ہوجائے جبکہ دیگر عبادت گزاروں کی توجہ اللہ کے وعدے کے مطابق جنت کی نعمتوں پر مرکوز رہتی ہے۔

آپ وہ پہلی ولیہ تھیں جس نے بے غرض عشقِ الٰہی کا تصور پیش کیا جسے دیگر نے اپنایا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف پر اس کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا نے واضح کیا کہ صرف عبادات اورنمازوں کی ادائیگی کافی نہیں ہے کیونکہ اس سے عشقِ الٰہی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اسی خاکساری و عاجزی  کا مظاہرہ کیا جس کے تحت مسلمانوں کو خوفِ خدا اور عشقِ الٰہی کا درس دیا گیا ہے جس کا مقصد ضروریاتِ دین پوری کرنے سے کہیں آگے ہے۔

دنیاوی زندگی سے کوسوں دور حضرت رابعہ بصری نے اللہ تعالیٰ کی محبت کا درس دیا اور لوگوں کو سمجھایا کہ خدا کی عبادت جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے نہیں بلکہ اس کے عشق میں کریں۔ صنفی امتیازات سے بالاتر ہو کر آپ نے آزادئ نسواں کا عملی نمونہ بن کر دینی احکامات کی پیروی کی جو اپنے آپ میں ایک تاریخی مثال ہے۔ 

Related Posts