کھلاڑیوں کے مالی مسائل کیسے حل ہونگے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان تقریباً24 کروڑ آبادی پر مشتمل ایک بڑا ملک ہے ،پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے اور ماضی میں پاکستان نے ہاکی میں شاندار کارنامے بھی انجام دیئے ہیں اوراسکوائش میں پاکستان نے پوری دنیا میں راج کیا جبکہ کبڈی میں پاکستان کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے لیکن آج اگر کھیل کی بات کی جائے تو کرکٹ کے علاوہ ملک میں دور دور تک کوئی دوسرا کھیل دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو حال ہی میں ہمارے انٹرنیشنل باکسر محمد وسیم نے کولمبیئن باکسر روبر باریرا کو شکست دیکرڈبلیو بی سی ورلڈ ٹائٹل کیلئے کوالیفائی کیا ہے اور اس سے چند روز پہلے ایک چائے پراٹھا بنانے والے ایک نوجوان کک باکسر ماسکو میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہا۔

چند ماہ قبل جاپان میں ہونیوالے اولمپکس میں پاکستان کے ایتھلیٹ طلحہ طالب اور ارشد ندیم نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مکس مارشل آرٹ کے کراچی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی شاہزیب خان نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔

اس طرح اگر دیگر کھیلوں کا جائزہ لیا جائے چاہے وہ فٹ بال ہویا ٹینس، جوجٹسو ہو یا بیڈمنٹن، تائی کوانڈو ہو یا تن سازی ہر کھیل میں پاکستان کے پاس گولڈ میڈلسٹ موجود ہیں لیکن پاکستان اسپورٹس بورڈ ان کھیلوں میں حاصل کردہ کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کھلاڑی مالی طور پر مستحکم نہیں ہیں اور بورڈ بھی کھلاڑیوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا۔

کھلاڑی انفرادی طور پر مقابلوں میں تو کسی نہ کسی طرح شریک ہوجاتے ہیں اور ٹائٹل بھی جیت لیتے ہیں لیکن اس جیت کو برقرار رکھنے کیلئے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان کیلئے سرمایہ ضروری ہے جو بورڈ کے پاس ہے لیکن بورڈ کی عدم دلچسپی یا لاپرواہی کی وجہ سے ایک ٹائٹل جیت کر لانے والا کھلاڑی آگے بڑھنے کے بجائے گمنامیوں کے اندھیروں میں کھوجاتا ہے۔

ابھی حال ہی ماسکو میں کانسی کا تمغہ جیتنے والا نوجوان نثار احمد کراچی کے ایک چائے خانے پر پراٹھے بناتا تھا ۔ قسمت کی کرنی سے اس کی آواز سوشل میڈیا پر پہنچنے کے بعد شہریوں نے اس کی مدد کی جس کی وجہ سے وہ نوجوان پاکستان کا پرچم روس میں بلند کرنے میں کامیاب ہوا اور اگر بورڈ اس کی پذیرائی کرتا یا اس کی تیاری میں شامل ہوتا تو شائد وہ نوجوان کانسی کے بجائے طلائی تمغہ بھی جیت جاتا۔

نثار احمد کا نام سوشل میڈیا پر گونجنے کے بعد بھی نجی کمپنیوں نے تو مدد کی پیشکش کی لیکن اسپورٹس بورڈ اس وقت بھی خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایتھلیٹ کو عوام سے چندہ مانگ کر عالمی مقابلوں میں شریک ہونا پڑے گا۔

ایسی ہی صورتحال مکس مارشل آرٹ میں طلائی تمغہ جیت کر لانے والے کراچی کے نوجوان شاہزیب خان کے ساتھ بھی پیش آئی۔

شاہزیب خان نے بھی اپنی مدد آپ ،کوچز اور استاد عمران قاسم خان کی مدد سے پیسے جمع کرکے قازقستان میں ہونیوالے مقابلوں میں شرکت کی اور سبز ہلالی پرچم کو سب سےاونچے مقام پر لہرایا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ پاکستانی ایتھلیٹ یا کھلاڑی جو ملک سے باہر ہیں لیکن اپنی فیلڈ میں چمپئن شپ میں شرکت کرچکے ہیں حتیٰ کے اعزازات بھی حاصل کرچکے ہیں وہ بھی پاکستان کے ان کھلاڑیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو مالی مشکلات کی وجہ سے عالمی مقابلوں  میں شرکت سے معذور رہتے ہیں۔

اسی طریقے سے تیراندازی کے کھلاڑی حسن عبداللہ اور ان کی آرگنائزیشن قائد اعظم آرچری ڈیولپمنٹ اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کئی بار اس بات کا اظہار کرچکی ہے کہ اگر آرچر ی میں کوئی کھلاڑی مالی مشکلات کی وجہ سے عالمی مقابلوں میں شرکت سے محروم رہتا ہے تو ہم اس کی مدد کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ کھلاڑی اپنی فیلڈ کا ماہر اور سب سے بہترین کھلاڑی ہو۔

یہ چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ملک میں موجود باصلاحیت کھلاڑیوں، فنانسرز، اسپانسرزاور نجی اداروں کو یکجا کرکے پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ بھی کئی کھیلوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں اور پاکستان کا نام روشن کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب دنیا صرف ہمیں کرکٹ کی وجہ سے تو جانتی ہے لیکن دوسرے کھیلوں میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے۔

Related Posts