بے خوف ہوکر کرکٹ کھیلنا ہوتا کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز حسن راجا اور ان کے بھی کپتان عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے ہمیں بار بار یہ بتاتے رہے ہیں کہ ہماری ٹیم کو بے خوف ہوکر عالمی مقابلوں کیلئے میدان میں اترنا چاہیے۔

یہ بے خوف کرکٹ بالآخر ہوتی کیا ہے ۔ یہ ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ بے خوف کرکٹ کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آپ آکر جارحانہ انداز اپنالیں اور چوکے چھکے مارنا شروع کردیں یاں تیز گیند بازی کریں بلکہ بے خوف کرکٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کھلاڑی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر تربیت یافتہ ہوں اور انہیں اپنے کھیل اور اس سے متعلق تمام معلومات ہوں۔

دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی بھی کھلاڑی ہو اس کا تجربہ ہی اس کی کامیابی کا راز ہوتا ہے اور اس کا ہرگز مقصد نہیں کہ غیر تجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل میچز یا میگاایونٹس میں موقع نہ دیا جائے بلکہ انہیں ٹیم کے ساتھ رکھ کر وقت کے ساتھ ساتھ تیار کیا جائے تاکہ وہ اپنے سینئرز کے تجربات اور ڈریسنگ روم کو دیکھ کر سیکھ سکیں لیکن ان کی تعداد بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

ایسا نہیں کہ آپ اگر 16 رکنی اسکواڈ میں 8 یا6 نوجوان لڑکے شامل کرلیں بلکہ اسکواڈ میں وقتاً فوقتاً اکا دکا نوجوانوں کو اسکواڈ میں شامل کرکے انہیں سینئرز کے ساتھ رہ کر سیکھنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ جب وہ میدان میں اتریں تو اپنے ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ سینئرز کا تجربہ بھی ان کے ساتھ ہو۔

چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ بے خوف ہوکر کھیلنے سے ان کی مراد کیا ہے اورکیا صرف نوجوان ہی بے خوف ہوکر کھیل سکتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سینئر کھلاڑی بے خوف ہوکر نہیں کھیل سکتے کیونکہ جس طرح ورلڈ کپ کیلئے پاکستان کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا گیاہے ۔اس میں آدھے سے زیادہ نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے جنہیں آئی سی سی کے بڑے ایونٹس تو دور کی بات ہے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچزکا بھی زیادہ تجربہ نہیں ہے۔

کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں دباؤ ہی سب سے اہم ہوتا ہے اور دباؤ میں آپ جتنا اچھا کھیلیں گے اتنا ہی بہتر نتیجہ سامنے آئیگا۔کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کی یہ سوچ کہ جو نیشنل میچوں میں اچھا کھیل رہے ہیں شائد وہ انٹرنیشنل میچز میں بھی اچھا کھیلیں گے لیکن یہ کیونکر ممکن ہے کیونکہ عالمی سطح کے میچز میں دیکھا جائے تو گراؤنڈ، وکٹ، مخالف کھلاڑی، شائقین حتیٰ کہ ہر چیز مقامی سطح سے یکسر مختلف ہوتی ہے ۔

یہاں ہونا یہ چاہیے کہ ہمیں کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں کی کارکردگی کو مد نظر رکھ کر انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ میگا ایونٹس میں آپ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ تجربات نہیں کرسکتے۔پوری دنیا کی ٹیمیں ورلڈ کپ یا دیگر ایونٹس کیلئے سالوں سال تیاری کرتی ہیں اور اپنے کھلاڑیوں کو مختلف ٹورز میں تیار کرکے بڑے مقابلوں میں اتارا جاتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ پاکستان میں تمام ایونٹس میں آزمودہ کھلاڑیوں کو کھلایا جاتا ہے اور بڑے ایونٹس میں نوجوانوں کو میدان میں اتار دیا جاتا ہے۔

کرکٹ کے آغاز میں جب ٹیمیں کم اور مواقع بھی زیادہ نہیں تھے تو پوری دنیا کے کھلاڑی کیری پیکر کھیل کر اپنے ٹیلنٹ کو مزید نکھارتے تھے جبکہ آج تو کرکٹ اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ پورا سال مقابلے ہوتے ہیں لیکن ہمارا بورڈ صرف ڈومیسٹک ایونٹس تک ہی محدود رہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتا ہے۔

آپ کو بے خوف کرکٹ کا کلچر پروان چڑھانا ہے تو اپنے نوجوانوں کو دیگر ممالک کی لیگز میں کھیلنے کیلئے بھیجیں تاکہ وہ دنیا کے مختلف کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر تجربہ حاصل کرسکیں ۔

پاکستان کی طرف سے ورلڈ کپ کیلئے منتخب کردہ اسکواڈ میں کئی ایسے نام شامل ہیں جنہوں نے کسی بھی ایونٹ میں حصہ نہیں لیا اور آپ نے انہیں میگا ایونٹ کیلئے بھیج دیا ہے اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے محض اتفاقیہ ایک دو اچھی پرفارمنس دیں لیکن آب معمول کارکردگی کے باوجود وہ بھی ٹیم کا حصہ ہیں اور ایسی ٹیم سے ورلڈ کپ جیت کر لانا دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

چیئرمین اور چیف سلیکٹر نے ورلڈ کپ کیلئے قومی کرکٹ ٹیم کا اسکواڈ توتشکیل دیدیا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم منشاء ہو یا نہ لیکن اس کو ضرور سپورٹ کرے کیونکہ جب بھی کوئی نیاچیئرمین یا چیف سلیکٹر آتا ہے تو وہ تبدیلیاں کرکے اپنی پسند کے کھلاڑیوں کو لاتا ہے اور ان کی پرفارمنس دیکھنے کے بعد تنقید کی جاسکتی ہے بغیر جانچے تنقید کرنا مناسب عمل نہیں ہے لیکن اس کے برعکس ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسی عمل نے پاکستان کرکٹ کو کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے۔

آپ ایک چیئرمین اور سلیکٹر کو 4 سال دیتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرکے کرکٹ بورڈ اور ٹیم کو چلانے کی کوشش کرتا ہے اور آخر میں بورڈ آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی آتا جارہا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنے بھی عہدیداران آئے ہیں سب نے ملکر پاکستان کرکٹ کو پیچھے ہی دھکیلا ہے کوئی بھی آگے لیجانے والا نہیں ملاکیونکہ ہماری پالیسیاں وقت گزاری کیلئے بنائی جاتی ہیں مستقبل کو مدنظر رکھ کر کبھی کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی۔

Related Posts