اللہ سے ڈرنے کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اشرف المخلوقات کہلانے والے آدم زاد یعنی انسان کو روئے زمین پر آئے ہوئے کتنی صدیاں بیت گئیں اور ہماری کتنی ہی نسلیں اپنے بچپن، جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر موت سے ہمکنار ہوئیں، یہ کوئی نہیں جانتا، تاہم اندازہ یہ لگایا جاتا ہے کہ زمین پر ہماری آمد سے لے کر اب تک کا عرصہ کروڑوں برسوں پر محیط ہے۔

راقم الحروف نے کروڑوں سال کی بات کو اندازہ اس لیے کہا کیونکہ آج تک زمین پر انسان کی آمد کے متعلق بنی نوع انسان میں اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا۔ مسلمانوں کا ایمان یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے زمین پر اترے اور حوا علیہا السلام سے پیدا ہونے والی نسل مختلف اقوام، ذاتوں اور ممالک میں پھیل گئی۔

دوسری جانب اسلام پر یقین نہ رکھنے والے دیگر مذاہب کے پیروکار مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ سائنس بھی مختلف نظریات پر یقین رکھتی ہے جو کبھی بگ بینگ تھیوری کا حوالہ دے کر زمین سمیت مختلف سیاروں اور نظامِ شمسی، ہماری کہکشاں اور دیگر کہکشاؤں سمیت پوری کائنات کو حادثے کا نتیجہ قرار دیتی ہے تو کبھی کسی نظرئیے کی بنیاد پر عالمِ انسانیت کو بندر کی اولاد قرار دیا جاتا ہے جسے مسلمان کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ان کے عقائد کے خلاف ہے۔

مختلف تاریخی حوالوں کی بنیاد پر کہا یہ جاتا ہے کہ انسان زمین پر کم و بیش 60 لاکھ سالوں سے آباد ہیں اور انسانوں کی جدید شکل 2 لاکھ سال قبل ارتقاء کے عمل میں داخل ہوئی۔ مختلف تہذیبوں کا جنم کوئی 6ہزار سال قبل ہوا، اور یہی طویل سفر طے کرتے ہوئے انسان آج اس مقام کو جاپہنچا ہے کہ چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب مریخ کو چھونے کی باتیں کی جارہی ہیں۔

 انسان چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے، اسے قرآنِ پاک کے ارشاد کے عین مطابق موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہماری نسل در نسل ایجادات، سائنس کی حیرت انگیز ترقی اور مخبوط الحواس کردینے والی ٹیکنالوجی بھی ہمیں موت سے نہیں بچا سکتی۔

اگر انسانیت کی تاریخ ہزاروں لاکھوں برسوں پر محیط ہے تو ربِ کائنات کی ذات قدیم ترین ہے جس نے انسان سمیت ان گنت مخلوقات کو کن کہہ کر پیدا کیا اور وہ ہمیشہ رہے گا جس پر مختلف ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمان غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔

ربِ کائنات نے انسان کو اپنی ذات کا احساس دلانے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر روئے زمین پر بھیجے جنہوں نے اسے عدل و انصاف اور کمزوروں پر ظلم نہ کرنے کا درس دیا لیکن کتنی ہی قوموں نے پیغمبروں کے درس کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ثبوت طلب کرکے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لانے کا گناہ کیا۔

بے شمار اقوام نے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہو کر ربِ کائنات کے نظامِ عدل و انصاف کا وہ نظارہ بھی دیکھا جب آسمان سے پتھر برسانے، زلزلے یا طوفان کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں برباد کردی گئیں۔ آج بھی مختلف آثارِ قدیمہ کو کھنگالیں تو ایسی باتوں کے ثبوت مل جاتے ہیں کہ کوئی قوم کبھی زمین پر موجود ہوا کرتی تھی، پھر پورا کا پورا شہر جہاں بیٹھا تھا، بیٹھا، کھڑا اور لیٹا رہ گیا اور موت کی آندھی سب کے جسموں سے روحیں نکال کر لے گئی۔

سورۂ رحمٰن میں ارشاد ہوتا ہے کہ “اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔” اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جگہ جگہ خدائے بزرگ و برتر سے ڈرنے اور عدل و انصاف کرنے والوں کیلئے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

دوسری جانب طاقت، دولت اور شہرت کا غرور ہے۔ کسی عقلمند نے کہا تھا کہ اگر آپ سب امیروں سے ساری دولت چھین کر سب غریبوں میں برابر برابر بانٹ دیں تو کچھ ہی وقت میں کچھ لوگ پھر امیر اور کچھ دوبارہ غریب ہوجائیں گے۔

دراصل یہ ظالم اور مظلوم، طاقتور اور کمزور اور غریب اور امیر کا فرق ہم انسانوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے اور سب کو مختلف قسم کی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا نظام جن خامیوں اور تباہی و بربادی کا شکار نظر آتا ہے، اس میں اس کا اپنا ہی ہاتھ کارفرما ہے۔

“قریب ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچا دے۔” اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ سے خوف کھائے اور اپنے برابر کے دیگر انسانوں پر رحم کرنا سیکھے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور اور کمزور کے مابین خلیج میں وسعت پیدا ہورہی ہے۔ اس سے پہلے کہ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئے، ہم سب کو خود ہی ایسے تمام مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ 

Related Posts