تحریک انصاف کے دعوے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ٹی آئی کی حکومت کا آغاز بڑے جو ش و خروش اور دھوم دھام سے ہوا، پاکستانی عوام کو اُمید تھی کہ اس حکومت کے سبب گورننس اور معیار زندگی میں بہتری آئیگی، اس کے باوجود دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے سخت ترین حامی بھی اب اس کی ناکامیوں کی وجہ سے مایوس ہونے لگے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا نظریہ ہے کہ ان کی پارٹی کے علاوہ تمام سیاستدان کرپٹ تھے۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں، بلکہ انتہائی بہترین قائد بھی ہیں، ملک کے بہترین ماہرین کی ٹیم ان کے ہمراہ ہوگی اور جو حکومت کرنے میں ان کی رہنمائی کرے گی۔

مگر اب پی ٹی آئی کی جانب سے کئے گئے وعدوں کے ٹوٹنے کے بعد عوام صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے، بلین ٹری منصوبہ، خیبر پختونخواہ میں وعدہ کیا گیا کہ 300ڈیم تعمیر کئے جائیں گے مگر ایک ڈیم بھی تعمیر نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ ن پر مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے کالج یا اسپتال نہیں بنائے، مگر ان کی حکومت میں کے پی میں کوئی بھی اسپتال یا یونیورسٹی نہیں بنائی گئی۔

حال ہی میں، وزیر اعظم نے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ آرڈر بھی ایک یوٹرنہے، کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ منتخب نمائندوں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈ نہیں دیں گے، کیونکہ یہی سے کرپشن کی شروعات ہوتی ہے اور عوام کی بھلائی کے لئے جاری کیا گیا پیسہ اپنے اصل مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہوپاتا، مگر اب اپنے وعدے کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز جاری کرنے کے احکامات دے دیئے ہیں۔

اگرچہ اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں ترقی کی شرح کافی کم رہی، مگر اپنے وعدوں کے برعکس حکومت بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں بھی ناکام رہی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے دواؤں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے، وزیر صحت کو تبدیل کردیا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ قیمتوں کو واپس لایا جائے گا۔ قوم ابھی بھی منتظر ہے۔

اگر ہم پولیو کیسوں کے بارے میں بات کریں، جنہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2017میں آٹھ اور جولائی 2018 تک صرف تین کیسوں تک محدود کیا تھا، تو 2019 میں یہ 157 کیسوں تک بڑھ گئے ہیں۔ پولیو سے بچاؤ کے پروگرام کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تاریخی کمی کے باوجود، ہمیں تیل کے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ہم نے چینی، گندم، دوائیں، ایل این جی سمیت متعدد اسکینڈلز دیکھے ہیں۔

جب بات عوامی قرضوں کی ہو تو، اس حکومت کے تحت پاکستان کا عوامی قرض 13.2 بلین روپے خطرناک حد تک بڑھ گیاہے۔ آج عوامی قرضوں کا اعدادوشمار 35.8 کھرب روپے ہے۔ حکومت مختلف اشیاء کی قیمتوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ آج، 10 میں سے 6 پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں۔

سندھ میں گیس کا بحران بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔جبکہ سندھ گیس کی پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا صوبہ ہے، جس میں سے 65-70 فیصد گیس پیدا ہوتی ہے، لیکن اب بھی اسے گیس کی قلت کا سامنا ہے، اس حکومت کے نظام کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سراپا احتجاج ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے معاشی سیکٹر کو تباہ کردیا ہے جبکہ پسماندہ اور غریب طبقہ مزید غربت تلے دب گیا ہے۔

تحریک انصاف کے بہت سے حامی حکومت کے غلط فیصلوں کے باعث مایوس ہوچکے ہی، اپوزیشن پر تنقید کرنے کے بجائے اور پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے پی ٹی آئی حکومت کو ذمہ داری لینا چاہئے اور کام مثالی کرنا چاہئے، تاکہ غریب اور عام آدمی کو ریلیف مل سکے، معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ میں بحثیں ہونے چاہئیں۔

Related Posts