یورو کپ:کھیل یا جنگ کا میدان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اتوار کے روز یوروکپ کے فائنل میںاٹلی جوکہ ایک بار 1968ء میں یورو کپ کا ٹائٹل جیت چکا ہے، اس کا مقابلہ پہلی بار فائنل میں پہنچنے والی انگلش ٹیم سے تھا اور انگلش ٹیم اس میچ میں فیورٹ قرار دی جارہی تھی لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یورو کپ 2020ء میں یہ دونوں حریف ناقابل شکست تھے۔ گروپ میچز میں اطالوی ٹیم نے اپنے تینوں جبکہ انگلینڈ نے دو میچ جیتے تھے اور ایک میچ برابری پر ختم ہوا تھا۔

یورو کپ فائنل شروع ہونے سے پہلے ہی ڈرامائی حیثیت اختیار کر چکا تھا، انگلینڈ کی سڑکوں پر جشن کا سماں تھا، ’اٹس کمنگ ہوم‘ کی گونج تھی اور رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس افراد ممکنہ جیت کی مناسبت سے بینر اٹھائے ناچ رہے تھے لیکن میچ کے نتیجے نے انگلش ٹیم کے سپورٹرز کو بری طرح مایوس کیا۔

اگر دونوں ٹیموں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو انگلش ٹیم اپنے دفاع کی وجہ سے بہت مشہور تھی اور پورے ایونٹ میں مضبوط دفاع کی وجہ سے انگلینڈ کیخلاف بہت کم گول اسکور ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا اٹیک بھی قابل فخر تھا جس کی بدولت گول مارنے میں انہیں بہت آسانی پیش آتی رہی اور اگر مخالف اطالوی ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ ٹیم سینئر کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنے جارحانہ کھیل کی وجہ سے پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہی۔

فائنل میچ میں ہم نے دیکھا کہ انگلینڈ کے دفاعی کھلاڑی لیوک شاء نے ایک منٹ اٹھاون سیکنڈ میں گول کرکے یورو کپ میں تیز ترین گول کرنے کا ریکارڈ قائم کیااس کے بعد مقابلہ بہت سخت رہا اور اٹلی نے کھیل میں اپنا دباؤ انگلش ٹیم پر برقرار رکھا جس کی وجہ سے 67ویں منٹ میں لیو بونجی نے گول کرکے مقابلہ برابر کیا۔

90 منٹ گزرنے کے بعد 15،15 منٹ کے دو اضافی ہاف کے دوران بھی میچ کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا جس کے بعد میچ پنالٹی شوٹ آؤٹس پر چلا گیا اور اٹلی نے لندن کے ومبلے اسٹیڈیم میں ایک سخت مقابلے کے بعد انگلینڈ کو پنالٹی شوٹ آؤٹ پر تین کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر یورپی فٹبال چمپئن شپ جیتی۔ انگلینڈ کی جانب سے تین پنالٹیز پر اسکور کرنے میں ناکام ہونے والے کھلاڑیوں میں مارکس ریشفورڈ، جیڈون سانچو اور بوکایو ساکا شامل تھے اور تینوں سیاہ فام ہیں۔

اطالوی ٹیم نے لندن کے میدان میں ہونیوالے یورو کپ کا فائنل جیت کر 53 جمود کو توڑ، اٹلی نے 1968ء میں پہلا یوروکپ جیتا تھا جبکہ 2000ء اور2012ء میں اطالوی ٹیم فائنل میں آکر شکست دے دوچار ہوئی اور یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے اٹلی کی ٹیم اپنے پچھلے 34 مقابلوں سے ناقابل شکست ہے۔

اس فائنل کو ایک بڑی تعداد میں شائقین نے میدان اور گھروں میں بیٹھ کر دیکھا جن میں برطانیہ کے شاہی خاندان، برطانوی وزیراعظم اور سابق انگلش کپتان ڈیوڈ بیکھم ، ٹام کروزسمیت درجنوں نامور شخصیات میدان میں موجود رہیں اور فائنل سے پہلے انگلینڈ میں ایک سماع بندھ گیا تھاجوکہ ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کرگیا تھا، اٹس کمنگ ہوم، جوکہ فائنل کے بعد تبدیل ہوکر اٹس کمنگ روم ہوگیا۔

اب اگر بات کی جائے میچ سے پہلے یامیچ کے بعد شائقین کو کنٹرول کرنے کی تو وہاں پر انگلش انتظامیہ بالکل ناکام نظر آئی، ومبلے کے میدان میں ہم نے دیکھا کہ سیکڑوں لوگ ٹکٹ کے بغیر گراؤنڈ میں گھس آئے اور میچ کے بعد انگلش کراؤڈ نے انتہائی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور میدان کے اندر اور فاتح ٹیم کے سپورٹرزتشدد کا نشانہ بھی بنایاتاہم انتظامیہ مکمل طور پر بے بس دکھائی دی۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک میچ کے بعد ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس صورتحال کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک مقابلے کے بعد کسی ایک ٹیم کے سپورٹرز کا دوسری ٹیم کے سپورٹرز کو تشدد کا نشانہ بنانا کسی صورت درست عمل نہیں ہے کیونکہ کراؤڈ جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کو سنبھالنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

میچ کے منتظمین کمائی کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ کراؤڈ تو لے آتے ہیں لیکن ان کو سنبھالنے اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہم نے اس تمام تر عمل میں سیاہ فام اور سفید فام کا تنازہ بھی دیکھا جوکہ کھیل میں قطعی ناقابل برداشت ہے۔

یورو کپ کی انتظامیہ کو آئندہ ایونٹ کے انعقاد سے قبل اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اگلا ایونٹ جہاں بھی ہووہاں سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کو یقینی بنایا جائے اور کھیل کے میدان میں جنگ جیسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔

Related Posts