قربانی کا بکرا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان میں عوام پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عوام پر نئے ٹیکس لگا کر انہیں ”قربانی کا بکرا“ بنانا حکومت کے لیے آسان راستہ ہے۔

ردعمل سے نمٹنے بچنے کے لئے حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ اخراجات میں سالانہ 200 ارب روپے کی کمی کر رہی ہے کیونکہ وہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ حال ہی میں اعلان کردہ اقدامات میں سے ایک جس نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے وہ ہے کابینہ کے اراکین کے لیے تمام مراعات اور یہاں تک کہ ان کی تنخواہوں سے بھی محروم ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیگر منتخب عہدیداران اور بیوروکریٹس بھی کئی ’پرتعیش‘ مراعات سے محروم ہو جائیں گے۔

سیاستدانوں کی مراعات میں کٹوتی بظاہر دکھاوا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ 85 رکنی کابینہ رکھنا عوام کی نظر میں سیاستدانوں کی مراعات کی دکھاوے کی کٹوتی سے بھی برا عمل ہے، مزید یہ کہ تمام سیاست دان صنعت کار، زمیندار یا وڈیرے نہیں ہوتے، تنخواہ دار افراد اپنی روزی روٹی کو چھوڑ کر عوام کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے ہیں انہیں اپنا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لئے آمدن کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم، یہ سچ ہے کہ ایسے لوگ اقلیت میں رہتے ہیں، اس لیے مراعات میں کٹوتی کا اطلاق زیادہ تر صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کے لیے ان کی سرکاری تنخواہیں پاکٹ چینج کی حیثیت رکھتی ہیں، اگر وہ بزنس یا فرسٹ کلاس میں پرواز کرنا چاہتے ہیں یا لگژری ہوٹلوں میں قیام کرنا چاہتے ہیں تو وہ یقیناً اپنے یوٹیلیٹی بلز خود ادا کر سکتے ہیں اور اپنے ہوائی ٹکٹوں کی ادائیگی خود کر سکتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بہت سے لوگ ایسی مراعات حاصل کر رہے ہیں جن کے وہ حقدار نہیں ہیں، پھر بھی کسی کو ان زیادتیوں کی سزا نہیں دی جاتی۔ گاڑی کے استحقاق کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ انہیں آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مونوٹائزیشن اسکیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ساتھ ہی متعدد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کو بھی با آسانی پکڑا جاسکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کی شرائط کیوں ماننی پڑ رہی ہیں؟ حکمران اس بدحالی کو روکنے کے لیے ملک کے نظام کو کیوں نہیں بدل رہے؟ اسلام آباد کو دوست ممالک کی مدد اور بین الاقوامی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے پیداواری اقدامات پر توجہ دینے اور آمدنی اور ٹیکس وصولی کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts