الیکشن کمیشن فیصلہ : انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور سازشی تھیوریز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

الیکشن کمیشن فیصلہ : انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور سازشی تھیوریز
الیکشن کمیشن فیصلہ : انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور سازشی تھیوریز

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کوریج نہایت مایوس کن رہی، یوں لگ رہا تھا جیسے ڈس انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے جو نامعلوم کہاں سے امنڈ آیا؟ صحافت میں اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گزارنے کے بعد چندمنٹ ٹی وی کے آگے بیٹھنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ خبریں کہاں سے چلائی جا رہی ہیں اور کون کون سے حلقے ڈس انفارمیشن انجیکٹ کر رہے ہیں۔

نہایت آسانی کے ساتھ بتایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے حوالے سے بھی بعض گمراہ کن باتیں دانستہ چینلز پر چلوائی جاتی رہیں۔ ایسا کون کر سکتا ہے، اس کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں، سب جانتے ہیں۔

پہلی ڈس انفارمیشن

سب سے پہلی ڈس انفارمیشن جو مسلسل پھیلائی جاتی رہی، وہ یہ کہ عمران خان پانچ سال کے لئے نااہل ہوگئے ہیں۔ بعض چینلز نے تو یہ بھی چلایا کہ وہ باسٹھ ون ایف کے تحت صادق وامین نہیں رہے ۔ دونوں باتیں سراسر غلط ہیں۔

یہ عمران خان کی تاحیات نااہلی یا پانچ سالہ نااہلی کافیصلہ نہیں ہے جیسا کہ بعض چینلز میں تاثر دیا گیا۔ یہ عمران خان کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ ہے، یعنی وہ میانوالی کی نشست سے رکن قومی اسمبلی تھے، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی رو سے ان کی وہ سیٹ ختم ہوگئی ہے۔

اب یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان تو میانوالی کی اس سیٹ سے پہلے ہی استعفا دے چکے تھے ، سپیکر نے بدنیتی کی بنا پر استعفا منظور نہیں کیا، ورنہ عمران خان تو عملاً سیٹ چھوڑ چکے اور وہ رکن قومی اسمبلی تھے ہی نہیں۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں انہوں نے چھ نشستیں جیتیں مگر جب تک ان میں سے کسی ایک پر حلف نہ لیں ، تب تک وہ رکن اسمبلی نہیں بن سکتے تھے۔

اس لئے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایک ایسے شخص کو ڈی سیٹ کرنے کا ہے جو پہلے ہی اپنی سیٹ چھوڑ چکا ہے۔ یوں سمجھ لیں کالج کے کسی ایسے سٹوڈنٹ کو کالج سے نکالنے کا فیصلہ جو کئی ماہ پہلے کالج چھوڑ کر جا چکا ہو۔

بعض قانون دانوں کے مطابق عمران خان کی صرف میانوالی والی سیٹ ختم ہوئی اور وہ اسی سیٹ پر اگر ابھی چند ہفتوں میں الیکشن کرایا گیا تو الیکشن لڑنے کے اہل ہیں کہ الیکشن کمیشن صرف ڈی سیٹ کر سکتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس اسمبلی کی مدت تک وہ نااہل رہیں گے، مگر ایسی صورت میں بھی الیکشن کمیشن کے اختیار پر اپیل میں سوال اٹھایا جائے گا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے یا نہیں؟

دوسری ڈس انفارمیشن

یہ بات مسلسل کہی جاتی رہی ہے کہ عمران خان کے خلاف بھی نواز شریف جیسا فیصلہ آگیا ہے یعنی اب وہ بھی نواز شریف کی طرح تاحیات نااہل ہوگئے ہیں یا اب انہیں سزا یافتہ کہا جائے گا۔ یہ سب غلط اور بے بنیاد ہے ۔

الیکشن کمیشن کی حیثیت ٹرائل کورٹ یا اعلیٰ عدالتوں جیسی نہیں۔ اس کا محدود دائرہ کار ہے۔ الیکشن سے متعلق اور منتخب ارکان اسمبلی وغیرہ کے حوالے سے معاملات۔ وہ کسی کے دیانت دار یا صادق وامین ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

عدالتیں البتہ ایسا کر سکتی ہیں، یہ ان کا دائرہ کار ہے۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ، مگر اس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور وہ اپنے اختیارات کا تعین بھی خود ہی کرتی ہے۔ یعنی صرف سپریم کورٹ ہی یہ بتا اور واضح کر سکتی ہے کہ اس کے پاس کیا اختیار ہے اور کون سا نہیں ۔

سپریم کورٹ نے نواز شریف کیس میں انہیں تاحیات نااہل قرار دیا اور وہ فیصلہ باسٹھ ون ایف کے تحت ہوا۔ آپ چاہیں تو اس پر سوال اٹھا سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ایسا کیوں کیا؟ نواز شریف کے پاس اپیل کا کوئی فورم نہیں بچا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بحثیں ضرور کریں، مگر یہ یاد رکھیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے نواز شریف کو سزا سنائی۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو تاحیات نااہل قرار نہیں دیا اور نہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اس کے پاس یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ کسی کے صادق وامین ہونے کا فیصلہ کر سکے ۔ پھر الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے اوپر دو اپیل کے فورمز موجود ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ۔

تیسری ڈس انفارمیشن

میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ عمران خان اب تحریک انصاف کے سربراہ بھی نہیں رہیں گے۔ عمران خان کو ناپسند کرنے والے بعض لوگوں نے قہقہوں کی اموجی کے ساتھ شاہ محمود قریشی کی تصاویر والی پوسٹیں لگائیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی جووائس چیئرمین ہیں، اب خود بخود پارٹی چیئرمین بن جائیں گے اور یوں پارٹی بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل گئی۔

یہ بھی ایک ڈس انفارمیشن اور بے بنیاد بات ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور وہ کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔ اوپر اس کی وضاحت ہوچکی ہے کہ ایسا صرف اعلیٰ عدالتیں کر سکتی ہیں۔

میاں نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ نے ایسا اس دلیل پر کیا کہ نواز شریف جب صادق وامین نہیں رہے تو اب وہ پارٹی کے سربراہ کس طرح رہ سکتے ہیں؟ اس نکتہ پر انہیں مسلم لیگ کی صدارت سے بھی ہٹا دیا گیا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ”صادق وامین“ کی بات میڈیا کہتا ہے، آئین میں تو امانت دار اور دیانت دار کے الفاظ ہیں۔

عمران خان کے خلاف جب ایسا کوئی فیصلہ آیا ہی نہیں تو وہ پارٹی کی سربراہی سے کیسے ہٹائے جا سکتے ہیں؟ ویسے اگر فرض کریں ایسا ہو بھی جاتا تب بھی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ہی فیصلہ کرتی کہ چیئرمین کون ہوگا؟ سیاست سے معمولی سا تعلق رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان کسی بھی صورت میں شاہ محمود قریشی کو یہ ذمہ داری نہیں سونپیں گے۔

وہ کسی ایسے کوپارٹی چیئرمین بنوائیں گے جو ان کا وفادار رہے اور فیصلہ کن مراحل پر اسٹیبلشمنٹ یا پی ڈی ایم کی طر ف جھکنے کے بجائے ان کے ساتھ کھڑا رہے۔ خیر یہ صورتحال تو پیدا ہی نہیں ہوئی، اس لئے کسی کو اچھا لگے یا برا، عمران خان ہی تحریک انصاف کے سربراہ ہیں۔

فیصلے میں موجود کمزوریاں

سب سے پہلی کمزوری تو یہ کہ بے حد عجلت دکھائی گئی، پانچویں ممبر کے صحت یاب ہونے کے لئے چار پانچ دن کا انتظار تک نہیں کیا گیا۔ دوسرا جمعہ کو فیصلہ سنا کر ایک عجیب وغریب نفسیاتی جنگ لڑنے کی کوشش کی گئی۔آخر کیوں؟ یہ فیصلہ ہفتہ یا پیر کو کیوں نہیں آ سکتا تھا؟تیسرا اس میں بہت سے قانونی تضادات ہیں ۔ آزاد قانونی ماہرین کے مطابق فیصلہ اتنا کمزور ہے کہ اپیل میں اس کے ٹھیرنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کھینچ تان کر فیصلہ دینے کی کوشش کی اور جن شقوں کا سہارا لیا گیا، ان کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ جیسے تریسٹھ ون پی کا معاملہ ہی الگ ہوتا ہے، جب کسی شخص کو عدالت کوئی سزا سنا دے تب اسے ڈی سیٹ اس شق کے تحت کیا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف کون سا عدالتی فیصلہ آیا تھا؟

سلمان اکرم راجہ اور دیگر معروف وکلا کی آرا میں یہ فیصلہ ناقابل دفاع ہے۔ ممتاز قانونی ماہر ڈاکٹر مشتاق خان نے بڑی باریک بینی سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پوسٹ مارٹم کیا اورا س کے تضادات نمایاں کئے۔

دو سازشی تھیوریز

اس فیصلے کے حوالے سے ایک معروف سازشی تھیوری یہ گردش کر رہی ہے کہ عمران خان کو نااہل کرنے کا مقصد اس پر دباﺅڈالنا اور اس کی قانونی حیثیت میاں نواز شریف کے برابر کرنا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق آئندہ دنوں میں عمران خان پر دباﺅ ڈالا جائے گا کہ تمہاری نااہلی ختم ہوجائے گی، شرط یہ ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہوجائے ، وہ واپس آئے اور اگلے الیکشن میں ن لیگ کی مہم چلا سکے۔

اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس نکتہ پر کتنا پسپا ہونے کو تیار ہوجائے گا؟
اگر عمران خان ڈٹ جائے اور سیاسی جنگ لڑنے کے ساتھ قانونی جنگ لڑے ، مگر یہ واضح کر دے کہ اس کی نااہلی ختم نہ ہوتب بھی وہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم کرانے اور سزا معاف کرانے کی حمایت نہیں کرے گا، تب معاملہ مختلف ہوجائے گا۔

دوسری تھیوری

اس سازشی تھیوری کے مطابق بعض حکومتی حلقے چاہتے ہیں کہ عمران خان کو دیوار سے لگایا جائے اور وہ شدید سیاسی ردعمل دینے پر مجبور ہو۔ ان کی کوشش ہے کہ پس پردہ جو مذاکرات چل رہے ہیں، وہ کسی طرح سبوتاژ ہوجائیں اور عمران خان مشتعل ہو کر لانگ مارچ کا عجلت آمیز اعلان کر دے۔ لانگ مارچ کے نتیجے میں سیاسی افراتفری پیدا ہو اور ایجی ٹیشن کو کچلنے کا موقعہ پیدا ہوگا، اس سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین فاصلے مزید گہرے اور وسیع ہوجائیں گے۔

 اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ ان چیزوں کو کس طرح دیکھتا اوراس میں ملفوف خطروں کی بو سونگھ کر کیا پالیسی بناتا ہے؟

Related Posts