معاشرتی دباؤ سے جنگ کریں۔پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ کاپیغام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معاشرتی دباؤ سے جنگ کریں۔پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ کاپیغام
معاشرتی دباؤ سے جنگ کریں۔پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ کاپیغام

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ گل کا کہنا ہے کہ میں فنکشن کرتی تھی، صبح این جی او جاتی تھی۔ 6 سے 8 ماہ تک پیسے جمع کرتی تھی اور پھر پڑھائی کرتی تھی۔ والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو اپنائیں، معاشرتی دباؤ سے جنگ کریں۔ 

ملک کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ گل نے ایم ایم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میں نے اتنی مشکلات کیسے برداشت کیں، لیکن آج جب سوچتی ہوں تویہ مشکلات بھی میٹھی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ان کا نتیجہ بہت اچھا نکلا۔

یہ بھی پڑھیں:

قتل کے مجرم کو قابلیت کی بنیاد پر 10لاکھ اسکالر شپ کی پیشکش

پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ گل نے کہا کہ آج لوگ میری جو عزت کرتے ہیں، میں اس عزت و احترام کیلئے ترسی ہوں۔ سارہ گل کے نام کے ساتھ ڈاکٹر سننے کیلئے میرے کان ترس گئے تھے۔ مجھے کم عمری میں ہی گھر کی چھت سے محروم کردیا گیا تھا۔

اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے کہا کہ میں کم عمر تھی۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے اور یہ معاشرہ کمسن بچیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے، وہ آپ جانتے ہیں۔ مجھے بھی معاشرے نے نوچ ڈالا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب مجھے برباد کردیا گیا۔

ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ گل نے کہا کہ مجھے کچھ سال تو سنبھلنے اور یہ سمجھنے میں ہی لگ گئے کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ عزیز احباب اور رشتہ دار کہتے تھے کہ میں ڈاکٹر نہیں بن سکتی۔

ڈاکٹر سارہ گل نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ کیا اب خواجہ سرا بھی ڈاکٹر بنیں گے؟ اگر ٹرانس جینڈر رقص کر لیں تو بڑی بات ہے۔ بھیک مانگنے کے سوا یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ میرے لیے مشکل یہ تھی کہ اپنی کمزوری کو کمزوری تسلیم نہیں کرنا تھا۔

سارہ گل نے کہا کہ میں نے خود کو سمجھایا کہ دنیا بولے گی، تمہیں ڈٹے رہنا اور معاشرے کے طنزیہ تھپڑ برداشت کرنے ہیں لیکن ہمت نہیں ہارنی ہے۔ ہر روز سوچتی تھی کہ اب نہیں پڑھوں گی۔ ماں کا مجھ سے بات کرنا میری حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔

تعلیم کے متعلق ڈاکٹر سارہ گل نے کہا کہ شروع میں جب میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو ان کیلئے بھی مجھے اپنانا مشکل ثابت ہوا۔ اسی وجہ سے میری پڑھائی میں کچھ وقفہ بھی آیا۔ میں نے اپنا میڈیکل کا فائنل پروفیشنل امتحان پہلی ہی کوشش میں پاس کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ فائنل بیچ کے تمام طلبہ کو سلام کرتی ہوں کہ ان کے والدین نے ان کی اتنی اچھی پرورش کی کہ آپ نے ٹرانس جینڈر اور خواجہ سرا سارہ گل کو محسوس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ ٹرانس جینڈر ہے۔ یونیورسٹی پرنسپل سمیت تمام اساتذہ نے بھرپور تعاون کیا۔

پاکستان کے قیام 1947 سے اب تک 74 سال لگ گئے اور قوم آج پہلی بار کسی ٹرانس جینڈر کو ڈاکٹر بنے دیکھ رہی ہے۔ ڈاکٹر سارہ گل نے کہا کہ میں پہلی ڈاکٹر ضرور ہوسکتی ہوں لیکن آخری ٹرانس جینڈر ڈاکٹر نہیں ہوں گی، اس کی گارنٹی دیتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے جیسی مزید ٹرانس جینڈرز ڈاکٹر بناؤں گی جو طب کے شعبے میں ملک کا نام روشن کریں گی۔ واضح رہے کہ پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی خواجہ سرا کا ڈاکٹر بن جانا کسی معجزے سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ 

Related Posts