مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف لندن میں چار سال کی مدت گزارنے کے بعد شیڈول کے مطابق اگلے ایک ہفتے کے اندر پاکستان واپس پہنچنے والے ہیں۔ جن حالات میں میاں نوازشریف کی وطن واپسی عمل میں آرہی ہے، ان کے مخالفین نے اس پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ ڈیل کے نتیجے میں ہی نواز شریف کی واپسی ممکن ہو رہی ہے۔
ہفتہ کے دن پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف کو پاکستان واپسی کے موقع پر مبینہ طور پر سرکاری پروٹوکول دیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں عدالتوں سے کلین چٹ مل جاتی ہے تو یہ سہولت دوسروں کو بھی ملنی چاہیے۔
واضح رہے کہ کرپشن کے الزامات پر سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 2019 میں اس وقت طبی بنیادوں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی، جب وہ جیل میں قید تھے۔
دوسری طرف نگراں وزیر اطلاعات نے نواز شریف کو وطن واپسی پر امکانی طور پر سرکاری پروٹوکول دیے جانے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
تاہم نگران وزیر کے ان دعوؤں کے برعکس ناقدین محسوس کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر مسلم لیگ (ن) کو واضح طور پر ترجیحی سلوک کا سزاوار سمجھا جاتا ہے جبکہ ن لیگ کی مخالف سمجھی جانے والی جماعتوں کی مشکیں کسی جا رہی ہیں، جو تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ گراونڈ فراہم کرنے کے انتخابی و آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔
نگران انتظامیہ کے اس دوہرے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے حامیوں کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں ریلی نکالنے پر بھی گرفتار کیا گیا، جبکہ اس کے برعکس مینار پاکستان پر مسلم لیگ ن کے بڑے سیاسی جلسے کے انتظامات کیلئے لاہور انتظامیہ جوش و خروش کے ساتھ متحرک رہی، جو واضح طور پر نگران انتظامیہ کے دوہرے معیار و کردار کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ متوقع انتخابی مہم سرکاری کنٹرول کے تحت ہوگی، ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ انتخابات سے پہلے اور اس کے بعد شدید تنازعات کھڑے ہوں گے اور نتیجے میں نئی منتخب حکومت سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نگران حکومت اپنے عمل اور عزم سے دوہرے معیار کا تاثر ختم کرے، تاکہ ملک و قوم کو کسی نئی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔