کابل کے چسکے چٹخارے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کابل کے چسکے چٹخارے
کابل کے چسکے چٹخارے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سرائیکی وسیب یعنی جنوبی پنجاب میں ہم سرائیکی بولنے والے پٹھان خوش خوراکی میں مشہور ہیں۔ سرائیکیوں میں دال بہت پسند کی جاتی ہے، سرائیکی کے کئی مشہور قصوں میں جن یا دیو کا ذکر آتا ہے تو وہ روٹیوں کاتھبہ(ڈھیر)اور دال کا کنہ(دیگچہ یا مٹکا)کھایا کرتا ۔

ہمارے پیارے دوست رﺅف کلاسرایہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ سرائیکیوں کے دیو بھی گوشت یا آدم خور ہونے کے بجائے دال خور ہوتے ہیں۔ ہم سرائیکی پٹھان مگر گوشت خوری میں مشہور ہیں۔

بھنا گوشت یا اوجری، سری پائے وغیرہ بہت مرغوب ہے۔ ہمارے سرائیکی پٹھانوں (خاکوانی، ترین، علیزئی، ملیزئی، باموزئی، بارک زئی، سدوزئی وغیرہ )میں کھانے کے لئے جب گھر کے بڑوں میں ڈسکشن ہو تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ ” نُکل “ کیا ڈالا جائے گا، یعنی یہ تو طے ہے کہ گوشت کا سالن بنے گا، مگر اس میں سبزی کیا ڈالی جائے؟

ہمارے گھرانے میں یہ رواج ہے کہ دس محرم کو سوکھا ہوا گوشت بھون کر کھایا جائے، قربانی کا گوشت نمک مرچ لگا کر دھوپ میں تاروں پر ڈال کر سکھایا جاتا ہے، پھر اسے سنبھال لیتے ہیں، عاشورہ کے دن ان خشک بوٹیوں کو کوٹ کراس میں دیسی گھی وغیرہ ملا کر بھنا ہوا سالن بنایا جاتا ہے ، گھر والے یہی کھاتے ہیں۔

ہم سرائیکی پٹھانوں کا اپنی طرف سے یہ شہدا کربلا کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ ہے کہ روایت کے مطابق آخری دنوں میں صرف تھوڑے سے سوکھے گوشت کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی سرائیکیوں میں بہت سے لوگ اس روز پالک، ساگ وغیرہ پکاتے ہیں ، اس میں بھی اظہار یکجہتی کاعنصر شامل ہوتاہے کہ بعض روایات کے مطابق شہدا کے قافلے میں پکانے کو کچھ نہیں تھا تو جو تھوڑا بہت ساگ پات ادھر ادھر سے توڑ کر ملا، اسے بنا لیا جاتا۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ ہم پٹھانوں نے ماتم اور غم منانے کی علامات میں سے بھی گوشت (خواہ خشک ہی سہی) کو ڈھونڈ نکالا۔

یہ تفصیل اس لئے لکھی کہ کابل میں گزرے چند دنوں نے میرے جیسے گوشت خور بندے کی بھی پنجابی محاورے کے مطابق بس کرا د ی ۔ ہر جگہ اتنے تواتر اور ذوق شوق سے دنبے، مٹن وغیرہ کھانے کو ملتے ہیں کہ خواب میںبھی ہٹے کٹے بھیڈو اور دنبے جنہیں ہم سرائیکی گھٹّا کہتے ہیں ، وہ پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔

افغان فوڈ غضب کی ہے، ہر جگہ مزے کے پکوان ملتے ہیں، مگر ٰزیادہ تر گوشت کے ۔ مٹن یا دنبہ ہر جگہ چلتا ہے، چکن برائے نام۔ مجھے ایک مقامی افغان دوست نے ایک کہاوت سنائی جس کا انگریزی ترجمہ اس نے کیا کہ چکن از اے ویجی ٹیبل (چکن تو ایک سبزی جیسی ڈش ہی ہے)۔

یہاں مٹن اور دنبہ کا گوشت نسبتاً سستا ہے، ہوٹلوں وغیرہ میں عام اس کی ڈشز مل جاتی ہیں۔ مختلف قسم کے کباب اور روش ، دم پخت وغیرہ عام ہیں۔

کابل میں ایک دلچسپ چیز دیکھی کہ ناشتے کے وقت سے کباب لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لاہور اور پاکستان میں یہ کام ناشتے میں نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں باربی کیو شام یا رات کے وقت کا معاملہ ہے۔ کابل میں ہمارے ہوٹل کے سامنے دو تین کبابوں کے ہوٹل تھے، قندز کباب وغیرہ، ان پر بڑے پراشتہا انداز میں کبابوں کی تفصیل لکھی تھی، کباب گوسالہ، کباب گوسفند وغیرہ وغیرہ۔

صبح نو دس بجے سے وہ سیخیں کھڑکانا اورملازم کباب کے نعرے لگانے شروع کر دیتے۔ دوپہر کو تیز دھوپ میں ان کے کاریگر سڑک کنارے انگھیٹی سلگا کر کباب لگا رہے ہوتے، ظاہر ہے اندر گاہک بیٹھے ان کبابوں کے منتظر ہوں گے۔

اگر آپ دال کو پسند کرتے ہیں یا سبزیاں مرغوب ہیں تو پھر آپ کابل میں گھاٹے میں ہوں گے۔ ہوٹلوں میں عام طور سے دال وغیرہ نہیں ملتی، کوئی خاص طور سے مہربانی کرے تو الگ بات ہے۔ سبزی میں بھنڈی وغیرہ مل جائے گی، مگر آپشنز محدود ہیں جبکہ کبا ب اور گوشت کے کھانوں کی آپشن لامحدود۔ ہاں افغان عوام لوبیہ پسند کرتے ہیں، سرخ لوبیہ پکاتے ہیں اور بعض ڈشز کے ساتھ بھی لوبیا ڈال دیتے ہیں۔

مجھے مقامی افغان دوستوں نے بتایا کہ جلال آباد اور دور دراز کے چھوٹے شہروں، قصبات میں ہوٹل دال ، سبزی بناتے ہیں ، کابل میں البتہ گوشت کے پکوان غلبہ پا چکے ہیں۔

افغان پلیٹر بڑا مزے کا اور مشہور ہے۔ اس میں کئی طرح کی تکا بوٹی مل جاتی ہے، بیف تکہ، مٹن تکہ، دنبہ تکہ، مچھلی اور نجانے کیا کیا۔ غالب نے کہا تھا کہ آم ہوں اور بہت سے ہوں۔ کابل میں اپنے پہلے دو تین دن تو ہم پاکستانی بھی یہی کہتے ہیں کہ کباب ہوں اور بہت سے ہوں ۔

دو سے تین دنوں کے بعد البتہ جی چاہتا کہ کچھ تبدیلی آئے۔ اس حوالے سے مگر کابل میں تبدیلی کے ساتھ وہی حشر کیا جاتا ہے جو عمران خان صاحب نے تبدیلی کے نام سے کیا۔یعنی کہیں بھیڑ کا گوشت تو کہیں لیمب تکہ ، کہیں بکرے کے کباب تو کہیں مٹن کباب۔

کابل میں پہلا دن تھا، شہر کے ایک معروف ترک ریسٹورینٹ میں ہماری دعوت تھی۔ میں دو تین بار استنبول جا چکا ہوں، ترک کھانے پسند ہیں۔ کابل کے ترک ریستوران میں مگر اندازہ ہوا کہ افغانوں نے ترک کھانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا ہے جو ہم نے چینی کھانوں کے ساتھ روا رکھا، یعنی پاکستانی ذائقے کے مطابق چینی کھانوں کو بدل ڈالا ، اتنا کہ چینی کھائیں تو پہچان نہ پائیں کہ یہ ان کے ملک سے منسوب کھانے ہیں۔

ہر چیز میں افغان سٹائل کی ریسپی ڈال دی جس سے مزا دوبالا ہوگیا۔ خاص طور پر اس کا پلیٹیر کمال تھا، ایک بہت ہی خستہ روٹی کے اندر قیمہ بھر کر تندور میں پکایا گیا، کیا خستگی اور کیا ذائقہ تھا اس کا۔ نام پوچھا تو پشتو میں کچھ بتایا گیا، جو یاد نہیں رہا۔

کابلی پلاﺅ پاکستان میں بھی کئی جگہوں پر عمدہ ملتا ہے، کابل کا اصلی والا پلاﺅ کو چند نمبر زیادہ ملیں گے ۔ روش تو خیر پاکستان میں بھی معروف ہوچکی ہے، کابل کی ہر دعوت میں روش ضرور کھانے کو ملی، ہر بار لطف آیا۔ دنبے کی کڑھائی کمال کی ہوتی ہے اگر کاریگر اس کے گوشت میں موجود ہلکی سی مہک کا علاج ڈھونڈ لے ۔ افغان باورچی اس معاملے میں پورے فنکار ہیں۔

ایک افغان ڈش مونتو یا منتُو ہر جگہ ملی۔ افغان میزبان بڑے فخر سے اس جانب توجہ دلاتے کہ یہ ہماری مشہور ڈش ہے۔ یہ چینی ڈمپلنگ یا ہمارے ہاں ملنے والے موموز کی طرح ہے، نرم سی چھوٹے سموسے کے سائز کی، اس کے اندر قیمہ یا سبزی بھری ہوتی،افغان سٹائل میں ساتھ سرخ لوبیہ بھی پڑا ہوتا اور اس کے اوپر دہی کا چھٹہ(چھینٹا) بھی پڑا ہوتا۔

ایک جگہ ڈش کھائی دو پیازہ۔ کہانیوں میں پڑھا تھا کہ اکبر کے مشہور نورتن میں سے ایک ملا نصیر کو دوپیازہ اتنا پسند تھا کہ ان کا نام ہی ملا دوپیازہ رکھ دیا گیا۔ اس میں پیازوں کے ڈھیر کے اندر گوشت کے ٹکڑے یا بوٹیاں ہوتی ہیں، مرچ مسالہ کم اور ہلکا سا شوربہ ۔

ترک ریستوران میں ترک کھانوں کے انداز میں لسی بھی پیش کی گئی، نمکین لسی۔ افغان دہی میں ہماری نسبت ترشی قدرے زیادہ ہوتی ہے، لسی بھی اسی لئے ترش تھی۔کابل کے مضافات میں ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے فارم ہاﺅس پربڑی پرتکلف دعوت دی۔ اس میں دیگر متعدد کھانوں کے ساتھ لسی کے گلاس تھے جن میں کھیرے کے چھوٹے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ میں نے سنا تھا کہ ایرانی یا سنٹرل ایشیا میں بعض جگہوں پر اس انداز میں لسی پی جاتی ہے۔

سرائیکی ماﺅں کو تو لسی میں کھیرے کا نام سن کر ہی ہول اٹھنے لگیں۔ ہمارے ہاں تو کھیرے کے ساتھ پانی پینا سخت خطرناک اور نقصان دہ سمجھاجاتا ہے ۔ لسی میں کھیرے کے ٹکڑے ڈال دینا تو خود کش حملہ ہی تصور ہوگا۔البتہ افغانستان ، ایران اور سنٹرل ایشیا میں یہ معروف پریکٹس ہے۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ عام لسی نہیں بلکہ گریک یوگرٹ کی طرح ہے اس میں کھیرے اور ہلکی پسی ہوئی کالی مرچ ملا دیتے ہیں، اسے غالباً پشتو میں کردھ یا کورد کہتے ہیں۔ گریک یوگرٹ میں دہی کو ململ کے دوپٹے میں ڈال کر لٹکا دیا جاتا ہے، اس کا پانی نچھڑ جائے تو باقی گاڑھی سی دہی بچتی ہے۔

گوشت کھا کھا کر خود کو دنبہ دنبہ فیلنگ آنے لگی تھیں،ہوٹل میں ایک دن لنچ کیا تو خوشی ہوئی کہ انہوں نے ایک دو نئی ڈشیں بنائیں۔ ایک تو چاول تھے جسے انہوںنے ماش چاول کہا، مگر اس میں دال ماش نہیں تھی، اس کا ذائقہ لاہور کے مشہور مسر چاول جیسا تھا، کمال ذائقہ دار۔ ایک ڈش آلو ، ٹماٹر اور ہلکی دہی کے ساتھ بنی تھی، اسے بَریانی کہا گیا۔ مجھے تو وہ بھی مزے دار لگی۔ ہر جگہ کی طرح مونتو بھی موجود تھی، مونتو کے ساتھ سرخ لوبیہ بھی مزا دیتا ہے۔

کابل میں البتہ ہر جگہ ٹھنڈی روٹی ہی ملی۔ روٹی ان کی پھولی ہوئی تھی ،مگر ظاہر ہے جو مزا گرم روٹی یا نان کا ہے ، وہ ٹھنڈے میں تو نہیں۔ گرم روٹی ہم نے کابل سے واپس آنے پر پشاور کے مشہور چپلی کباب بنانے والے کے ہاں ہی کھائی۔

کابل میں ایک اور چیز جو مس کرتے رہے وہ دودھ پتی چائے ہے۔ افغان چائے سے مراد قہوہ لیتے ہیں، سلیمانی قہوہ۔ یہ بڑا مزے کا قہوہ ہے، ہاضم اور مزے دار۔ جب تک آپ اپنا پیالہ الٹ کر پلیٹ میں نہیں رکھیں گے، میزبان قہوہ اس میں بھرتے رہیں گے۔

ہوٹل میں البتہ ٹی بیگ والی چائے مل جاتی، مگر تسلی نہ ہوتی، ہماری خاطر ایک دو جگہوں پر میزبانوں نے دودھ پتی چائے کی کوشش تو کی ، مگر لاہوری دودھ پتی سے سو دو سو میل دور ہی رہ پائے۔ البتہ جس دن واپس آنا تھا ، اس ناشتے میں ویٹر سے فرمائش کی تو اس نے دودھ پتی چائے بنا کر دی۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ کڑھائی چائے ہے کہ بھلے مانس نے کڑھائی میں دودھ کے ساتھ بہت سے ٹی بیگ ڈال کر پکایا اور دودھ پتی کے قریب قریب چائے بنا ڈالی۔اس کڑھائی چائے کی تصویر بنا لیتے تو یقینا سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانی تھی۔

Related Posts