آئی ایم ایف ڈیل میں تاخیر اور ڈالر کا اتار چڑھاؤ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں تاخیر مارکیٹ میں ملے جلے رجحانات کا باعث بنی ہے، کیونکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر تقریباً 19 روپے کے خسارے کے بعد دوبارہ بحال ہوا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے عالمی ادارے کے ساتھ قرض بحالی کے پروگرام کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی یہ بے یقینی ہنوز باقی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں مقامی کرنسی کی قدر میں 6.63 روپے یا 2.38 فیصد اضافہ ہوا اور کاروباری ہفتے کے آخری روز (جمعہ کو) گرین بیک کے مقابلے میں 278.46 پر بند ہوا۔

جمعرات کو مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی پر نظرثانی اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں تعطل کے حوالے سے خدشات کی وجہ سے روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 19 روپے تک گر گیا تھا۔ ای سی اے پی کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے ڈالر کی قدر میں کمی کی چند وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان سرحد کے قریب ڈالر کی جاری شرح سے تجارت کرے۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس امر پر سنجیدہ بحث شروع کی جائے کہ ہمیں قرض کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اب مزید غلطیوں کا وقت اب ختم ہوچکا ہے، اب مہلت عمل بہت کم، تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجوہات کا جائزہ ضروری ہے۔ معیشت کے مسئلے کا طویل مدتی حل ہی اصل حل اور علاج ہے۔ فی الحال عالمی ادارے کے ساتھ معاہدے میں تاخیر میں جہاں اور بہت سے امور اسباب کے درجے میں موجود ہیں، وہاں اس سلسلے میں سفارتی کوششوں میں خلا اور ساکھ کا مسئلہ بھی شامل ہے جس کا اس مرحلے پر ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کے ہی پابند ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے پاس معاشی استحکام کیلئے دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ عالمی ادارے کے ساتھ معاہدے میں بہت سی چیزوں پر ہم گھبرا رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو سامنے لائیں اور عوامی سطح پر ان سے عہد کریں تاکہ پیچھے ہٹنے کی کوئی صورت نہ ہو، کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ بند کمروں میں معاہدے ہوتے ہیں اور کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ کیا کچھ ہوا ہے، بعد میں پھر سوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے اور کچھ برآمد نہیں ہوتا۔

1.2 بلین ڈالر کے اس معاہدے کو عوامی سطح پر لانا ضروری ہے کیونکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگز اور دوست ممالک سے ملنے والی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ کثیر الجہتی سودوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یہ طے ہے کہ ہم اب ایسے مقام پر آگئے ہیں کہ اب نہ ہمارے لیے پیچھے ہٹنا ممکن ہے اور نہ ہی معیشت کا جامع انتظام کیے بغیر محض قرض گیری کی پالیسی ہی جاری رکھنا ہمارے معاشی مرض کی دوا ہے۔

Related Posts