کورونا وائرس کے اصل حقائق سامنے آنے چاہئیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چین کے شہر ووہان میں پہلا کیس سامنے آنے کے بعد کورونا وائرس کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ ایک سال بعد عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا ہے کہ ہمیں بڑھتی ہوئی وبائی بیماری کے بارے میں فکر کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کورونا کے جانوروں کے ذریعہ پھیلاؤ کی حقیقت جاننے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا کیونکہ وائرس کے مزید پھیلاؤ سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ وائرس کی حقیقت ابھی بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور گذشتہ ایک سال میں اس مسئلے پربہت زیادہ سیاست کی گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ ڈبلیو ایچ او کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے سخت تنقید کا نشانہ بنی کیونکہ امریکا نے وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے ہنگامی فنڈز روک دیئے تھے۔ عالمی سطح پر متفقہ کورونا ویکسین کیلئے ادارہ کو 4اعشاریہ 5 ارب ڈالر سے زیادہ کے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی محققین کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ وائرس بھارت میں 2019 کے موسم گرما میں شروع ہوا تھا اور وہ جانوروں سے آلودہ پانی سے انسانوں تک پہنچاتھا۔

پھر اس نے ووہان تک کا سفر کیا جہاں اس وباء کی تشخیص ہوئی۔چینی محققین کا استدلال ہے کہ وائرس تغیرات کو فروغ دیتا ہے اوراصل وائرس کے حوالے سے دیگر 8 ممالک میں بھی علامات پائی گئی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے پر ابھی بھی تحقیق کا فقدان ہے،چین پر اس عمل میں رکاوٹ کا الزام عائد کیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس نے وائرس کی ابتدا میں بین الاقوامی تحقیقات کے عالمی ادارہ کی شرائط کو متاثر کیا ہوکیونکہ پہلے بھی متاثرین کے حوالے سے تحقیقات کے لئے ریسرچ ٹیمیں بھیجی گئی ہیں لیکن وہ ناکام رہیں۔

اس کے بعد سے اس وائرس سے 1اعشاریہ 46 ملین افراد ہلاک اور 63 ملین سے زیادہ متاثر ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر کی معیشتیں بدحال ہوچکی ہیں اور یہاں تک کہ طاقتور قومیں بھی گھٹنوں تک آگئی ہیں۔

صحت کے نظام پر ایک سال سے جاری حملے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں اور سال کابیشتر حصہ بچے اسکول سے باہر رہے ہیں اور اب بھی تعلیمی ادارے بند ہیں۔

کورونا کے حوالے سے ویکسین کی تیاری قریب آنے پر لاگت اور تقسیم کے مسائل سے سر اٹھارہے ہیں ،اس معاملے پر اب بھی شفافیت کی کمی ہے۔ دوا ساز کمپنیاں ویکسین تیار کرنے کے قریب پہنچ گئی ہیں لیکن اس وائرس کے معاشرتی اور معاشی اثرات کے بارے میں ابھی بھی تحقیق کا فقدان ہے،ہمیں مستقبل میں اس طرح کی وباؤں سے بچنے کے لئے وائرس کی اصل حقیقت کو جاننا ہوگا کیونکہ حقائق چھپانے سے دنیا مزید متاثر ہوگی۔

Related Posts