سندھ بھر کی جامعات اور بورڈز میں ریٹائرڈ افسران عدالتی ریڈار پر آ گئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Court proceedings started against retired universities officers

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : بیک وقت تنخواہ ، پنشن اور دیگر مراعات لینے والے 60 سال سے زائد العمر افسران کیخلاف عدالتی کارروائی شروع ہو گئی۔ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سربراہان 29 مارچ تک محکمہ یونیورسٹیز اینڈ  بورڈز کوزائد العمر افسران کی لسٹیں دینے میں ناکام ہوگئے۔

محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے سربراہان کے نام 24 مارچ کو جاری کئے گئے خط نمبر/U&B/MICS-1/2022SO.(A) میں یہ دہرایا گیا کہ محکمہ کی جانب سے 11 مارچ کو بھی ایک لیٹر جاری کیا گیا تھا جس میں جامعات اور بورڈز میں ریٹائرڈمنٹ کے بعد کام کرنے والے 60سال سے زائد العمر افسران کی لسٹ طلب کی گئی تھی ۔

سیکشن آفیسر (ایڈمن)علی فراز کی جانب سے جاری کردہ اس لیٹر کے باوجود بعض اداروں کی جانب سے تاحال لسٹیں جاری نہیں کی گئی ہیں جبکہ جامعہ کراچی کی قائمقام /عبوری وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے جامعہ کے ماتحت 2 سینئرز اور چیئر کے ڈائریکٹر پر مشتمل تین افسران کے نام شامل کر کے لسٹ ارسال کر دی ہے۔

جامعہ کراچی میں قائم حسین ابراہیم جمال (HEJ) ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری اینڈ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ کے قائمقام ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری،  ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ(KIBJE) کے ڈائریکٹر عابد اظہر اور شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر کے ڈائریکٹر سلیم میمن ریٹائرڈمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں جس کی وجہ سے انہی سینٹرز کے دیگر اہل افسران کی شدید حق تلفی کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت 60 برس سے زائد العمر اور ریٹائرڈمنٹ کے بعد بیک وقت پنشن اور تنخواہ لینے والے افسران کی تعیناتی کلیدی عہدوں پر ممنوع ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر کے ڈائریکٹر سلیم میمن 68 برس، اقبال چوہدری 63 برس، عابد اظہر 67 برس کے باوجود دوسری اور تیسری بار کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں جبکہ حیرت انگیز طور پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی نے خود قائمقام ہونے کے باوجود تیسری بار اقبال چوہدری کو ہی قائمقام ڈائریکٹر تعینات کر دیا تھا۔

ان میں ڈاکٹر اقبال چوہدری حسین ابراہیم جمال (HEJ) سے تنخواہ وصول کیئے بغیر “فی سبیل اللہ” امور کی انجام دہی کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس وقت اسلام آباد COMSTECH کے ڈائریکٹر/کوآرڈینٹر جنرل کے عہدے پر بھی تعینات ہیں۔

تاہم بیک وقت کراچی HEJ اور اسلام آباد COMSTECH دو مختلف مقامات/شہروں میں موجود اہم اداروں میں امور کی انجام دہی بھی سوالیہ نشان ہے ۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ 60 سال اہم تعلیمی خدمات انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کو بعد از ریٹائرمنٹ ذاتی زندگی کیلئے وقت دینے اور ان کی جگہ کسی اہل اور دیگر پروفیسرز کو کام کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جا رہا ہے ۔

دوسری جانب شہید اللہ بخش سومرو آرٹس اینڈ ڈیزائن ہیری ٹیج یونیورسٹی کے قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر بھائی خان شر بھی ریٹائرڈ مگر کلیدی عہدے پر تعینات افراد کے کلب میں شامل ہیں۔

بھائی خان شر مہران یونیورسٹی کے آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ سے وفاقی کالج برائے آرٹ اینڈ ڈیزائن جامشورو میں ڈیپوٹیشن پر ڈائریکٹر تعینات ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے کیڈر تبدیل کرتے ہوئے ٹیچنگ سے ایڈمنسٹریشن میں سروسز منتقل کر کے خود کو مستقل ملازم قرار دے دیا تھا جبکہ اس دوران وہ ٹیچنگ فیکلٹی کی مد میں پی ایچ ڈی الاؤنس بھی لیتے رہے ۔

24 اپریل 2020 کو بھائی خان شر ریٹائرڈ ہوئے جبکہ 20 اپریل 2020 کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کو ایک بار پھر ڈائریکٹر تعینات کر دیا تھا جس کے بعد جولائی 2020 کو اسی کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تھا۔ بعد ازاں 8 ستمبر 2020 کو بھائی خان شر کو ہی اس جامعہ کا قائمقام وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا تھا جس کے بعد ایک ہی ادارے سے پنشن اور تنخواہ بھی وصول کر کے بھائی خان شر نے انوکھی ترین مثال قائم کی ہے۔

اس کے علاوہ ریٹائرڈ مگر کلیدی عہدوں پر تعینات افسران کے کلب میں شامل دیگر افسران میں مہران یونیورسٹی کے ریٹائرڈ استاد زیبسٹ کیمپس خیر پور کے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر آغا ظفر اللہ، مائننگ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر عبدالغنی پٹھان، زیبسٹ کیمپس خیر پور کے میکینکل ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر حسین علی خان درانی ، BSRA زیبسٹ کیمپس خیر پور کے پروفیسر لال چند اور زیبسٹ کیمپس خیر پور پیٹرولیم اینڈ گیس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد یعقوب سومرو بھی شامل ہیں ۔

مذکورہ پروفیسرز کے بارے میں ڈائریکٹر جنرل آڈٹ سندھ کی جانب سے تین سال سے مسلسل اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں جس کے باوجود سید مراد علی شاہ کی مرادیں پوری کرنے والے ریٹائرڈ افسران کلیدی عہدوں پر تعینات رہ کر اہل اور سینئر پروفیسرز کی حق تلفی کر رہے ہیں۔

AGS کے آڈٹ میں اعتراض بھی لگایا گیا تھا کہ ان لوگوں کو بغیر کسی رولز کے بھرتی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک سال میں صرف تنخواہ کی مد میں آئے بجٹ کا 2اعشاریہ 26 ملین روپے کا نقصان کیا گیا ہے، جبکہ یہ لوگ اپنے ادارے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے پنشن بھی لے رہے ہیں ۔

اس کے علاوہ بھی متعدد اداروں کی جانب سے آنے والے ریکارڈ میں ہوشربا انکشافات کیے گئے ہیں تاہم محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کی جانب سے یہ اقدام سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر اٹھایا گیا ہے جس میں سندھ ہائی کورٹ نے پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری و ڈاکٹر مونس احمر کی آئینی درخواست میں ریٹائرڈ افسران کی دوبارہ تعیناتیوں پر اعتراض اٹھایا تھا۔

Related Posts