کراچی ائیرپورٹ کےقریب بلندعمارتیں مستقبل میں بھی کسی حادثے کا باعث کا بن سکتی ہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کراچی : ماڈل کالونی طیارہ حادثہ میں غیر قانونی بلند عمارتیں زیادہ نقصانات کا سبب بنیں،لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ائیرپورٹ کے قریبی علاقوں میں  کس کی اجازت سے غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہوتی رہی ہیں؟

کراچی ماڈل کالونی طیارہ حادثہ میں جتنی ذمہ دار پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن ہے اتنی ہی ذمہ داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ہے۔

ایئرپورٹ رن وے کے قریب مبینہ طور پربھاری نذرانے وصول کر کے بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی گئی، کمرشل پلاٹوں پر ماڈل کالونی کے عین اس مقام پر جہاں سے ہوائی جہاز رن وے پر اترتے اور اڑان بھرتے ہیں بلند ترین عمارتوں کی موجودگی مزید حادثات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ذرائع کے مطابق ایئر پورٹ کے قریب بعض بلڈرزنے فضائی زون میں10 اور 11 منزلہ کمرشل عمارتوں کا اجازت نامہ بھاری نذرانے دیکر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افسران سے لے رکھا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بلند عمارتیں سب کے سامنے تعمیر ہو رہی ہوتی ہیں اس کے باوجود متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ جاتی ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اس حوالے سے ماڈل کالونی کے علاقہ مکینوں نے بتایا کہ یہاں کے بعض شہریوں نے بلند عمارتوں کے خلاف عدالتوں سے بھی رجوع کر رکھا ہے تاہم ابھی اس کیس میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے نہ ہی عدالتوں سے ایسے کیس کی تصدیق ہو سکی ہے۔

دنیا بھر میں بڑے شہروں میں ایسے مقامات پر ایئر پورٹ بنائے جاتے ہیں جہاں آبادی قریب نہ ہو ، کراچی ایئر پورٹ بھی ایسا ہی تھا تاہم 35 برس قبل ماڈل کالونی کے اس مقام پر آبادی شروع ہوئی اور گزشتہ 15 سے 20 سال کے دوران یہاں اضافی بلند عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہو گئی تھیں جن کی روک تھام سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی تھی اور اس کے اجازت نامے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جاری کیے ۔

اگر بغیر اجازت ناموں کے بلند عمارتیں تعمیر ہوتی رہی ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی انہیں اداروں کی ہے کہ انہوں نے اسے روکا کیوں نہیں۔

دوسری طرف ایئر پورٹ کے رن وے پر جس طرف سے جہاز اترتا ہے یا روانہ ہوتا ہے اس طرف عموماََ زرعی ہموار زمین رکھی جاتی ہے تاکہ جہازوں کی پرواز اور اترنے میں آسانی ہو اور ہنگامی لینڈنگ بھی کرائی جا سکے۔

اس حوالے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان اسماعیل کھوکھر نے ایم ایم نیوز کو بتایا کہ عید کی تعطیلات شروع ہو گئی ہیں اور ایئر پورٹ کے اطراف کتنے فاصلے تک کتنی بلند عمارتیں بنانے کی اجازت ہے اس کی تفصیل مجھے معلوم نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے متعلقہ محکمہ ہی بتا سکتا ہے، ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات اورکئی عمارتوں کے حوالے سے متعلقہ ادارے (ایس بی سی اے )کو نوٹس دے رکھے ہیں تاہم کتنے دیے ہیں اور کتنوں پر عمل ہوا ہے اس کا علم نہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں فضائی حادثات کی وجوہات کیا ہیں؟

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر ملیر ٹاؤن عامر کمال سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میں 5 روز قبل ہی ملیر میں تعینات ہوا ہوں ،مجھے ابھی یہ نہیں پتہ کہ جہاں حادثہ ہوا ہے وہ علاقہ ایس بی سی اے کےکنٹرول میں ہے یا کنٹونمنٹ بورڈ کے کنٹرول میں ہے، بلند اور کمرشل فلیٹس و پورشنز کی تعمیرات پر بھی انہوں نے کہا کہ اب عید کی تعطیلات کےبعد ہی کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں گا۔

Related Posts