وزیرِ اعظم کا متنازعہ بیان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان آج کل پاکستان میں عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے دئیے گئے حالیہ بیان پر کڑی تنقید کی زد پر ہیں۔ عوامی سوال و جواب کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان سے پوچھا گیا کہ جنسی استحصال کی روک تھام کیلئے پی ٹی آئی نے کیا کام کیا؟ جس پر وزیرِ اعظم کا فون کرنے والے کو دیا گیا ردِ عمل متنازعہ ثابت ہوا۔

اگرچہ وزیرِ اعظم عمران خان خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی مذمت کرتے ہیں لیکن انہوں نے عصمت دری کو فحاشی سے منسلک کیا اور اسے مغربی اور بھارتی کلچر سے درآمد کی گئی روایت قرار دیا۔ اس تبصرے سے نہ صرف خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیمیں لرز کر رہ گئیں بلکہ معاشرتی حلقوں، عالمی میڈیا اور دیگر تنظیموں نے بھی اس پر آواز اٹھانا شروع کردی۔

دورانِ گفتگو وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ اشارہ بھی کیا کہ اگر خواتین پردے کی پابندی کرنے لگیں تو عصمت دری کے واقعات کسی حد تک روکے جاسکیں گے۔ وزیرِ اعظم کے مطابق پردہ ان لوگوں کی بری نیت کو کم کرسکتا ہے جن میں قوتِ ارادی کی کمی ہوتی ہے جبکہ عصمت دری کا جرم بری نیت کی بجائے طاقت کے عدم توازن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب کسی جنسی زیادتی کی خواہش رکھنے والے مجرم کو معاشرتی اور عدالتی نظام، احتساب اور سزا کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے ارادوں پر قابو رکھتا ہے۔

غور کیا جائے تو وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان سے مردانہ رویے کی بجائے حکومتی ذمہ داری کو محدود کیا گیا اور اسے معاشرے پر ڈال دیا گیا۔ یہ نقطۂ نظر حکومت کی جانب سے معاشرے کو کوئی واضح پیغام دینے میں کامیاب نہ ہوسکا جبکہ وزیرِ اعظم اس موقعے کو عصمت دری روکنے کیلئے قانون سازی کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالنے کیلئے استعمال کرسکتے تھے۔ وزیرِ اعظم کا بیان عصمت دری سے متعلق جرائم پر قابو پانے کیلئے غیر مؤثر اندازِ حکومت کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کے نقاد ایسے تبصروں پر کھلے عام انہیں اشتعال دلانے میں مصروف ہیں۔ پہلے ہی ملک کی ایک بڑی اکثریت ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے متاثرین سے مجرموں کا سا سلوک کرتی ہے مثلاً جنسی استحصال کی ذمہ داری متاثرہ افراد پر ہی عائد کرنے کی روایت ہمارے سامنے ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان اگر اپنا مؤقف بہتر انداز میں بیان کرتے تو یہ زیادہ دانشمندانہ اقدام قرار دیا جاسکتا تھا۔

بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں صنفی امتیاز اور جنسی استحصال ایک تلخ حقیقت ہے جس کا شکار ہونے کا الزام ہی صورتحال کو خراب کردیتا ہے۔ امید ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان مثبت تنقید پر غور کرتے ہوئے اپنے بیان کی وضاحت پیش کریں گے۔ 

Related Posts