نرم مزاجی، مومن کی اہم خصوصیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مومن کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ سختی کی بجائے نرم مزاجی کو اپنا شعار بنالیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں رسولِ اکرم ﷺ کی نرم مزاجی اور سختی سے گریز کی تعریف فرمائی ہے۔ فرمایا: یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نرمی برتی۔ اگر آپ ﷺ ظالم یا سخت دل ہوتے تو یقینا ( اہلِ ایمان) آپ کو چھوڑ دیتے۔ پس ان سے درگزر کریں، ان کیلئے اللہ سے بخشش مانگیں اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں۔ ایک بار فیصلہ کرکے اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ (سورۂ آلِ عمران، آیت 159) ۔

اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو نر م مزاج اور خوش اخلاق بنایا اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کو مؤمنین کیلئے بہترین نمونۂ عمل قرار دیا گیا ہے تو آپ ﷺ کی شخصیت کا یہ پہلو ہمیں بھی اپنانا چاہئے۔

اگر ہم حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی مثال سامنے رکھیں تو فرعون کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ پیغمبر کو یہ نصیحت فرماتا ہے کہ تم دونوں (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام) فرعون کے پاس جاؤ۔ بے شک اس نے ظلم کیا ۔ اور اس سے نرمی سے بات کرو، شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا اللہ سے ڈرے۔ (سورۂ طٰہٰ، آیت 43-44)۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ پہلے سے یہ بات جانتا تھا کہ فرعون کبھی حق بات قبول نہیں کرے گا، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نرمی سے بات کرنے کا درس دیا۔

ایک خوبصورت حدیث جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا، اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دون جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے۔ (سنن الترمذی، 2488)۔  حقیقت یہ ہے کہ ہم نرم مزاج لوگوں کو پسند کرتے ہیں جبکہ سخت مزاج لوگوں سے عوام بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پھر ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی۔ فرمایا درختوں کے درمیان ایک درخت ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور یہ ایک مسلمان کی مانند ہے۔ مجھے بتاؤ وہ (درخت) کون سا ہوسکتا ہے؟  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جنگل کے درختوں کے متعلق سوچنے لگے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے سوچا کہ یہ کھجور کا درخت ہوسکتا ہے لیکن میں نے (یہ کہنے میں) جھجک محسوس کی۔ صحابہ کرام کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ (صحیح مسلم)

کھجور کے درخت کی تشبیہ سے نبئ آخر الزمان ﷺ نے سمجھایا کہ جس طرح کھجور کا درخت ہوا کے ساتھ جھک جاتا ہے، اسی طرح مسلمان بھی نئی آزمائش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے تاہم منافقین کو حدیث میں دیودار کے درخت سے تشبیہ دی گئی کیونکہ یہ اس وقت تک نہیں ہلتا جب تک کہ وہ ٹوٹ نہ جائے۔

ایک بار رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے سردار سے شائستگی سے گفتگو فرمائی۔ ملاقات کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ آپ ﷺ نے منافقین کے سردار پر مہربانی کیوں فرمائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ! کیا تم نے مجھے کبھی بری اور ناشائستہ زبان بولتے دیکھا ہے؟ (یاد رکھو) قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بد ترین لوگ وہ ہوں گے جنہیں لوگ ان کی برائیوں سے دور رہنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 6032) ۔

تجارت کے معاملات میں نرمی اور نرم مزاجی اچھی خصوصیت ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت ہو ایسے شخص پر جو اپنی خریدوفروخت اور اپنی رقم واپس مانگنے میں نرمی کرے۔ (صحیح بخاری، جلد 3، کتاب 34، نمبر 290)۔ نیز حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کے ایک آدمی سے آخرت میں حساب لیا گیا۔ اس کے ہاں کچھ بھی اچھا نہ پایا، سوائے اس کے، کہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنے کاروبار میں نرمی اختیار کرتا تھا اور اپنے غلاموں کو حکم دیتا تھا کہ تنگدستوں کے قرض معاف کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم ایسے اعمال کے زیادہ حقدار ہیں، لہٰذا اس کے گناہوں سے درگزر کرو۔ (صحیح بخاری، 2261)۔

بنیادی طور پر ایک مومن کی شخصیت میں احسان جیسی عظیم خصلت ضرور ہونی چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ مہربانی کو پسند فرماتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی چیز میں نرمی نہیں ڈالی جاتی، سوائے اس کے، کہ وہ اسے خوبصورت بنا دے اور کبھی کسی چیز میں سختی پیدا نہیں کی جاتی، سوائے اس کے، کہ وہ اسے بگاڑ دے۔ آئیے عید الفطر کے موقعے پر ہم سب مسلمان بھی بلا تفریق مذہب، نسل یا مسلک تمام لوگوں کیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں نرمی اور مہربانی اختیار کریں اور اپنی بقیہ زندگی میں خوش اخلاقی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو عید مبارک!

Related Posts