کرپٹو کرنسی پر پابندی کی راگنی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 حکومت پاکستان وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کے بجائے آج بھی اپنے روایتی دقیانوسی خیالات کے گرد گھوم رہی ہے،پوری دنیا کرنسی نوٹ اور سکوں سے نکل کر پہلے برقی طریقہ کار اور آج کرپٹوکرنسی میں لین دین کررہی ہے لیکن پاکستان میں کرپٹو کو اپنانے اور ریگولیٹ کرنے کے بجائے پابندی کی صدائیں آرہی ہیں۔

پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں شہری آن لائن کاروبار میں حصہ لیتے ہیں اور کرپٹوکرنسی میں  دلچسپی رکھنے والوں کی بھی کثیر تعداد موجود ہے لیکن پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قبولیت نہ ہونےکی وجہ سے لوگ غیر ملکی ایکس چینج کے ذریعے لین دین کرتے ہیں جس میں کثیر ذرمبادلہ بیرون ایکس چینجز کے پاس چلا جاتا ہے۔

پاکستان میں وقار ذکاء نامی ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ملک میں کرپٹو کرنسی کی ترویج اورحکومتی سطح پر ریگولیشن کیلئے آواز اٹھارہے ہیں گو کہ اب تک وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائے تاہم انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے اور وقار ذکاء پرامید ہیں کہ ملک میں کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کروانے میں کامیاب ہوجائینگے۔

وقار ذکاء ملک میں کرپٹو کرنسی کی ترویج کیلئے ہر پلیٹ فارم سمیت عدالتوں میں بھی جنگ لڑرہے ہیں اور ملک کی عدلیہ میں کرپٹو کو اس کا مقام دلوانے کیلئے کوشاں ہیں۔ گزشتہ روز بھی سندھ ہائیکورٹ میں کرپٹوکرنسی کی جنگ میں وقار ذکاء اور حکومت پاکستان آمنے سامنے تھے۔ عدالت میں حکومت کی پوری توجہ کرپٹو کرنسی پر پابندی لگانے پر مرکوز تھی۔

گزشتہ روز عدالت میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ شائد حکومت نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کو ہر صورت بین ہی کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بات کرنے یا سننے کو بھی تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت میں کسی بھی بات کو سننا ضروری ہوتا ہے اور اگر ضروری ہوتو اس مقصد کیلئے قانون سازی بھی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں جمہوری روایات اور تقاضوں کے برعکس کرپٹو کرنسی کے حوالے سے حکومت سننے کو بھی تیار نہیں ہےاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد پاکستان میں جمہوری نہیں بلکہ شاہی نظام ہے کہ بادشاہ سلامت عمران خان نے کسی چیز کو برا کہہ دیا تو وہ بری ہوگئی۔

وہ تو بھلا ہو ہماری عدلیہ کا جو اپنے شہریوں کو سننے کیلئے کسی حد تک تیار ہے اور حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہدایات دے رہی ہے کہ چیزوں کو من مانے طریقے سے چلانے کے بجائے ضروری امور پر قانون سازی کی جائے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جائے۔

اب اگر ہم کرپٹو کے حوالے سے زیرسماعت کیس پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اس میں کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہے۔

اگر ایک پاکستانی وقار ذکاء یہ کیس لڑرہا ہے تو دیکھنایہ ہوگا کہ کیا اس میں انکا کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ ہے کیونکہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ میں ایک کرپٹو ایکس چینج پاکستان میں لانچ کرنا چاہتا ہوں جس کے ذریعے جب پاکستانی یا غیر ملکی اس کرپٹوایکس چینج میں انویسٹ کرینگےتو ناصرف پاکستان کا پیسہ پاکستان میں رہے گا بلکہ بیرون ممالک سے بھی پیسہ پاکستان آئیگا۔

حکومت پاکستان کو کرپٹو کی صورت میں پیسہ باہر جانے کے حوالے سے تحفظات لاحق ہیں اور اہم بات تو یہ ہے کہ ایکس چینج بننے سے حکومت کے خدشات بھی دور ہوجائینگے۔

اگر حکومت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اقدامات کرتی ہے تو بلاشبہ کرپٹو ایکس چینج حکومت کے زیر نگرانی ہی ہوگا اور جیسا کہ چند روز دیکھنے میں آیا کہ سیکڑوں پاکستانیوں کے اربوں روپے غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے لوٹ لئے گئے تاہم اگر حکومت پاکستان کے تحت کرپٹو ایکس چینج قائم ہوتی ہے تو فراڈ اور دیگر مسائل پر بھی قابو پایاجاسکتا ہے۔

پاکستانی عوام سے اربوں روپے کے فراڈ کے بعد غیر ملکی ایکس چینج بائنانس نے پاکستان کو اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے کیونکہ بائنانس ایکس چینج کسی بھی کمپنی کو مکمل چھان بین کے بعد کاروبار کی اجازت دیتی ہے لیکن حکومت پاکستان اس حوالے سے مکمل طور پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور پورا زور پابندی لگانے پر لگایا جارہا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے کرپٹو کے حوالے سے محکمہ خزانہ سے مکمل تفصیلات طلب کی ہیںاور ایف آئی اے کے پاس اب یہ اختیار بھی ہے کہ پاکستان میں جو بھی پی ٹو پی کرپٹو منی ایکس چینج بغیر رجسٹریشن کام کررہی ہیں تو ان سے تفتیش کی جاسکتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے 12 اپریل کو ہونے والی اگلی سماعت پر محکمہ خزانہ کرپٹو کے حوالے سے عدلیہ کو کوئی معقول راستہ بتائے گی یا پابندی پابندی کا راگ جاری رہے گا۔

Related Posts