ترکی میں آیا صوفیہ کا تاریخی پس منظر اور طیب اردگان کا مسجد کی بحالی کا فیصلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترکی میں آیا صوفیہ کا تاریخی پس منظر اور طیب اردگان کا مسجد کی بحالی کا فیصلہ
ترکی میں آیا صوفیہ کا تاریخی پس منظر اور طیب اردگان کا مسجد کی بحالی کا فیصلہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سے ٹھیک 3 روز قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے آیا صوفیہ کے تاریخی اور قدیم مقام کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا جس پر مسلمانوں کی طرف سے انہیں بے شمار تعریفی پیغامات موصول ہوئے ہیں۔

پاکستان کے ترکی جیسے عظیم مسلم ملک کے ساتھ برادرانہ اور گہرے ثقافتی و تاریخی تعلقات ہیں جن کی جڑیں خود قیامِ پاکستان سے بھی زیادہ پرانی ہیں کیونکہ ہم ترکی کو سلطنتِ عثمانیہ کے حوالے سے جانتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔

آج بھی بے شمار مسلمان متحدہ حکومت یعنی خلافت کی بحالی کیلئے ترکی کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ رواں ماہ کے دوران آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کے فیصلے نے ترکی کا مقام قومِ مسلم کی نظر میں مزید بلند کردیا ہے۔

آئیے آج آیا صوفیہ مسجد کی تاریخی حیثیت پر غور کرتے ہیں کہ ایک قدیم مسجد کو چرچ میں کس نے تبدیل کیا؟ اور رجب طیب اردگان طویل عرصے سے دورِ اقتدار میں ہونے کے باوجود رواں برس یہ فیصلہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

آیا صوفیہ مسجد کی تاریخی حیثیت

آج کل آیا صوفیہ کے تاریخی و قدیم مقام کا نام بدل کر آیا صوفیائے کبیر جامع شریفی رکھ دیا گیا ہےجسے ہم مختصراً آیا صوفیہ مسجد کہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک یہ مقام مسیحی گرجا گھر کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ 

ترک دارالحکومت استنبول میں واقع آیا صوفیہ مسجد ماضی میں جامع کیتھڈرل، رومی کیتھولک اور سیکولر چرچ کے ساتھ ساتھ عثمانی مسجد کے طور پر استعمال ہوتی رہی، جبکہ یہ جگہ کم و بیش 1660ء سال پرانی ہے۔

آیا صوفیہ کے مقام پر قسطنطین نے 360ء میں لکڑی سے بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا جو چھٹی صدی عیسوی میں آتشزدگی کا شکار ہوگیا اور بعد ازاں 532ء میں اِس کی تعمیر شروع ہوئی جس میں 10 ہزار معماروں نے حصہ لیا۔

قیصر نے تعمیرات کیلئے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ جب جسٹینن اول پہلی بار یہاں آیا تو کہنے لگا کہ (معاذ اللہ) میں نے سلیمان (علیہ السلام) پر سبقت حاصل کر لی ہے گویا اس کے نزدیک چرچ کی تعمیر بیت المقدس کی تعمیر سے بہتر تھی۔

رومی بادشاہ جسٹینن اوّل کے عہدِ اقتدار کے دوران سن 537ء میں  تعمیر ہونے والی یہ مسجد سب سے زیادہ گنجائش کی حامل مکمل محراب دار چھت رکھنے والی پہلی مسجد قرار پائی جس کا اندازِ تعمیر بازنطینی کہلاتا ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ جب یہ مسجد تعمیر ہوئی تو بازنطینی طرزِ تعمیر کا شاہکار کہلائی جس نے فنِ تعمیر کی تاریخ پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو اسلام اور مسیحیت دونوں مذاہب کیلئے اہم قرار پائی۔

فتحِ قسطنطنیہ کے بعد

سن 1453ء میں یعنی آج سے تقریباً ساڑھے 5 صدیاں پہلے تک قسطنطنیہ میں آیا صوفیہ مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز تھا جسے اسی سال عثمانی سلطان محمد ثانی نے فتح کیا جن کا لقب قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح قرار پایا۔

مسیحی مذہب کے پیروکار 5 ویں صدی عیسوی کے بعد 2 بڑے مکاتبِ فکر میں منقسم ہوچکی تھی۔ مشرق میں قسطنطنیہ مسیحیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جس میں مصر، شام اور حبشہ کے ساتھ ساتھ یونان، بلقان اور ایشیائے کوچک شامل رہے۔

مسیحیوں کیلئے مذہبی اہمیت

قسطنطنیہ میں مسیحیوں کے مذہبی پیشوا کو پیٹیارچ جبکہ روم میں موجود دوسری بڑی سلطنت کے مذہبی پیشوا کو پوپ یا پاپا کہا جاتا ہے۔ مغرب میں موجود دوسری سلطنت کا مرکز اٹلی کا شہر روم رہا جس کے اکثریتی علاقے یورپ میں تھے۔

دونوں سلطنتیں مسلسل سیاسی اختلافات کا شکار رہیں جن کی بنیاد سیاست اور فرقہ واریت دونوں پر تھی۔ مغربی سلطنت کو رومن کیتھولک جبکہ مشرقی آرتھوڈوکس کلیسیا کے تحت آتی تھی۔ آیا صوفیہ چرچ آرتھوڈوکس سے تعلق رکھتا تھا۔

عموماً مسیحی قوم یہ عقیدہ رکھتی آئی ہے کہ آیا صوفیہ نامی چرچ ان کے قبضے سے کبھی نہیں نکل سکتا جبکہ آرتھوڈوکس کلیسا کے سربراہان خود کو سربراہِ کلیسائے قسطنطنیہ کہتے آئے ہیں۔

مذہبی پیشگوئی اور مسلمانوں کی فتح

انگریز تاریخ دان ایڈورڈ گبن کے مطابق مذہبی پیشگوئی یہ تھی کہ ترک دشمن جب قسطنطین کے ستون کے قریب پہنچیں گے تو آسمان سے فرشتہ اترے گا جس کے ہاتھ میں تلوار ہوگی۔ وہ سلطنت کو کسی ایسے غریب کے حوالے کرے گا جو ستون کے پاس بیٹھا ہو۔

ایڈورڈ گبن لکھتا ہے کہ اِس جھوٹی پیشگوئی کی پیروی میں مسیحی برادری آیا صوفیہ میں بھر گئی۔ لوگ مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کرتے رہے لیکن تحفظ انہیں مسلمانوں نے عطا کیا۔

جب ترک فوج آگے بڑھی تو کوئی فرشتہ نہیں آیا۔ سلطان محمد فاتح نے فتح کے بعد نمازِ ظہر آیا صوفیہ میں ادا کی۔ آخر وقت تک مسیحی امدادِ غیبی کے منتظر تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سلطان محمد فاتح نے کہا کہ سب لوگوں کی جان، مال اور مذہبی آزادی کا خیال رکھا جائے گا۔ کسی کو بلا وجہ قتل نہیں کریں گے۔

مسلمانوں نے چرچ کیوں ختم کردیا؟

سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ حکومت سے کہا تھا کہ جنگ ضروری نہیں ہے، ہمارے ساتھ صلح کر لو، لیکن مسیحی حکومت نہ مانی جس کے بعد مسلمان جنگ کرکے یہاں کے حکمران بنے۔ اب مسلمانوں پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ چاہتے تو چرچ کو باقی رکھ سکتے تھے۔ ا

دوسری جانب مسلمانوں نے جب دیکھا کہ مسیحی قوم تو یہ سمجھتی ہے کہ مسلمان یہ چرچ کبھی فتح نہیں کرسکتے  تو انہوں نے یہ سوچ لیا کہ باطل عقائد کو ختم کرنا اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے۔

مسلمان حکمران سلطان محمد فاتح نے جب آیا صوفیہ چرچ کو مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو اسے خرید لیا۔ بعد ازاں چرچ کی تصویریں مٹا یا چھپا کر دیگر اہم تعمیراتی تبدیلیاں کی گئیں اور مسجد کو جامع آیا صوفیہ کہاجانے لگا۔مسجد کی زمین باضابطہ طور پر خریدنے کیلئے سلطان نے رقم جیب سے ادا کی اور باضابطہ دستاویزات بنائے گئے جو ترکی میں دستیاب ہیں۔ 

سلطنتِ عثمانیہ جب تک قوت میں تھی، یہاں 5 وقت کی نماز ادا کی جاتی رہی اور یہ عہد کم و بیش 5صدیوں پر محیط ہے جس کے بعد ایک نیا دور آگیا۔

مصطفیٰ کمال کا عجیب فیصلہ

اتاترک کہلانے والے مصطفیٰ کمال کے دور میں ترکی اسلام سے کوسوں دور چلا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو مصطفیٰ کمال کو ملک کا سربراہ بنایا گیا۔

ترکی کو جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ سے مختلف ممالک خاموشی سے الگ ہوتے چلے گئے جس پر اسلامی دنیا کی طرف سے عالمی سطح پر کبھی کوئی واویلا نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ الگ الگ حکومتیں عوامی نمائندوں کے مفاد میں تھیں جو جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار آج بھی گرم کیے ہوئے ہیں۔

اس دور میں بہت سے غلط فیصلے کیے گئے جن میں سے ایک اہم غلط فیصلہ مصطفیٰ کمال نے کیا اس نے آیا صوفیہ مسجد میں نماز بند کرا دی۔ مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا جو گزشتہ ماہ تک عجائب گھر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

طیب اردگان نے مسجد کو بحال کیوں کیا؟ 

بظاہر تو مصطفیٰ کمال کی ترکی میں وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی۔ فرق صرف زبان کا ہے۔ ہم قائدِ اعظم محمد علی جناح کو بابائے قوم جبکہ ترک عوام مصطفیٰ کمال کو اتاترک کہتے ہیں۔

اگر ہم دونوں الفاظ کا ترجمہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے معنی میں رتی برابر بھی فرق نہیں۔ بابائے قوم کا مطلب بھی وہی ہے جو اتاترک کا ہے یعنی قوم کا باپ یا وہ شخص جس کی عزت پاکستانی یا ترک قوم اپنے باپ کی طرح کرتی ہے۔

یہاں یہ سوال بے حد اہم ہے کہ اگر اتاترک ترکی کے قائدِ اعظم تھے  تو طیب اردگان نے مسجد کی بحالی کا فیصلہ کیوں کیا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی اقدار طیب اردگان کے نزدیک بابائے قوم سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ ایک جگہ جب مسجد بنا دی جائے تو اسے تبدیل کرکے کسی اور مقصد کیلئے قیامت تک استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ مسجد ہمیشہ مسجد ہی رہے گی جبکہ مصطفیٰ کمال نے اسے عجائب گھر بنا دیا جو اسلام کے خلاف ایک غلط فیصلہ تھا۔

پھر طیب اردگان نے 10 جولائی کو یہ فیصلہ کیا کہ آیا صوفیہ کو مسجد بنایا جائے جس پر ترکی سمیت دنیا بھر کے مسلمان خوش نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ فیصلہ ترک بابائے قوم کے فیصلے کے خلاف ہے جس پر مسلم دنیا ہمیشہ ترک صدر کو یاد کرے گی۔ 

Related Posts